میجر اسحاق شہید کی بیوہ اپنے شوہر کے نقش قدم پر

نومبر 2017 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک فوجی آپریشن کے دوران شہادت کے درجے پر فائز ہونے والے میجر محمد اسحاق کی بیوہ نے اپنے شہید شوہر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی ہے بلکہ ایک بہترین نشانے باز کا اعزاز بھی جیت لیا ہے۔ یاد رہے کہ 22 نومبر 2017 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تھی، جس میں میجر اسحاق نے دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فائرنگ سے جام شہادت نوش کیا تھا. میں اسحاق شہید کے پسماندگان میں ایک بیوہ ڈاکٹر عائشہ خالق اور ان کی دو سال کی بچی تھی۔
تاہم میجر اسحاق کی اچانک شہادت کے بعد ان کی بیوہ ڈاکٹر عائشہ خالق نے ہمت ہارنے کے بجائے اپنے شوہر ہی کے راستے کو اپناتے ہوئے آرمی میڈیکل کالج میں اپلائی کر دیا جہاں انہوں نے نہ صرف کامیابی کے ساتھ میڈیکل کورس مکمل کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فائرنگ کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔ انہوں نے اپنے شہید شوہر کی گن کے ساتھ پریکٹس کرتے ہوۓ کامیابی کے ساتھ نہ صرف یہ کورس مکمل کیا بلکہ نشانہ بازی کے مقابلے میں بھی بہترین نشانے باز کا اعزاز حاصل کیا۔ ڈاکٹر عائشہ نے کامیابی کے ساتھ کاکول اکیڈمی میں تربیت کے تمام مراحل کو مکمل کیا، انہوں نے جی تھری رائفل سے 200 میٹر کے فاصلے سے نشانے لگائے اور 16 میں سے 15 اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ چنانچہ انہیں کورس کی بہترین نشانے باز‘ کا اعزاز دیا گیا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی بندوق تھی جو کہ شہادت کے وقت میجر اسحاق کے زیر استعمال تھی۔ انہوں نے اپنے آخری معرکے میں اس جی تھری رائفل سے 40 راؤنڈ فائر کئے، انہوں نے 20 راؤنڈ دائیں ہاتھ سے فائر کیے اور پھر جب ان کا دایاں ہاتھ زخمی ہو گیا تو انہوں نے باقی 20 راؤنڈ اہنے بائیں ہاتھ سے فائر کئے۔
میجر اسحاق جیسے ہنستے مسکراتے نوجوان کی جدائی کا سانحہ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب ان کی جیسی چمکتی ہوئي آنکھوں اور مسکراہٹ والی بیٹی ہر ہر لمحہ ان کی یاد دلانے کے لیے موجود ہو- ان حالات میں ڈاکٹر عائشہ نے خود کو بہت سارے کاموں میں مصروف کر لیا جو ان کو بظاہر زںدگی گزارنے کا مقصد تو فراہم کر رہے ہیں مگر شہید کی یاد کو بھولنے نہیں دیتے ہیں- حالیہ دنوں میں ڈاکٹر عائشہ خالق نے شہادت سے قبل میجر اسحاق کے زخموں پر بندھی خون آلود پٹیوں کو جمع کر کے ان سے خطاطی کے انداز میں کلمہ طیبہ بھی لکھ ڈالا۔ یہ وہی کلمہ ہے جس کی سر بلندی کے لیے ان کے شوہر نے اپنی جان خالق حقیقی کی بارگاہ میں ایک نذرانے کے طور پر پیش کی- آرٹ کا یہ نادر نمونہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں ایک شہید کے زخموں کا خون شامل ہے۔ اس کی تخلیق میں ایک محبت کرنے والی باوفا بیوی کی محبت اور شوہر سے جدائي کا صدمہ بھی پوشیدہ ہے- ٹوئٹر پر شئير کی جانے والی کلمے کی یہ تصویر نہ صرف تیزی سے وائرل ہو رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ سوشل میڈيا صارفین اپنی محبت کا اظہار بھی کر رہے ہیں.
ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ میجر اسحاق کی شہادت والے دن ہم میسج پر بات کرتے رہے۔ پھر اچانک سے میسج کا جواب آنا بند ہو گیا۔ مجھے لگا وہ مصروف ہو گے ہیں کیونکہ ان کے واٹس ایپ کا ٹک بلو نہیں ہو رہا تھا۔ وہ کہتے تھے کام کے دوران مجھے میسج نہ کیا کرو کیونکہ پھر میر ی توجہ دوسری طرف مبذول ہو جاتی ہے۔۔۔ ان دنوں آپریشن رد الفساد چل رہا تھا۔ شہادت کے واقعے کی تفصیلات کے مطابق میجر اسحاق کو اطلاع ملی کہ آج مطلوب دہشت گرد ظاہر شاہ دو سال بعدافغانستان سے اپنے گھر آیا ہے ۔ بہت دن سے یہ لوگ اس دہشت گرد کی تاک مں تھے۔سرچ آپریشن اس کی تلاش مں چلتا رہتا تھا۔ ظاہر شاہ افغانستان کے مشن کو ہیڈ کر رہا تھا۔ میجر اسحاق اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کے ٹھکانے میں داخل ہو گئے۔ وہ پچھلے کمرے میں چھپا ہوا تھا۔ اسی وقت لائٹ بھی چلی گئی۔ میجر نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر اندر لائٹ ڈالی تو اندر سے بزدل دہشت گرد نے دو فائرکئے جو اسحاق کے داہنے ہاتھ پر لگے ۔ جب داہنا ہاتھ بیکار ہو گیا تو اسحاق نے اپنے بائیں ہاتھ کی مدد سے راونڈز فائر کئے اور زخمی ہاتھ سے میگزین بھی چینج کی۔
اسی دوران دشمن نے باقی سپاہیوں کی طرف ہینڈ گرنیڈ پھینکا، تاہم اسحاق نے سپاہیوں کی جانیں بچانے کے لئے انہں دھکا دے کر گرنیڈ پر چھلانگ لگا دی۔ یوں گرنیڈ ان کے پیٹ کے نیچے پھٹ گیا۔ آخری لمحے ان کی زبان پر بار بار کلمہ کا ورد تھا۔ شہادت سے پہلے اسحاق کا دایاں ہاتھ شدید زخمی ہو چکا تھا لیکن وہ بائیں سے لڑتے رہے۔ اپنی اس بہادری پر انہں تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔