میرا استعفٰی!!!
تحریر : انصار عباسی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
حال ہی میں مجھے کسی نے بتایا کہ بین الاقوامی شہرت کے حامل مبلغِ اسلام محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے موجودہ دورہ پاکستان کے دوران یہ بات کی کہ یوٹیوب چینل کی کمائی حرام ہے اور اُس کی وجہ یوٹیوب ویڈیوز پر چلنے والے اشتہارات ہیں جو عموماً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتے ہیں۔
مجھے اس پر پریشانی لاحق ہوئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا بھی ایک یوٹیوب چینل ہے جس سے مجھے پیسہ بھی ملتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یوٹیوب چینل پر چلنے والے اشتہارات پر یوٹیوب چینل کے مالک کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چاہے یوٹیوب چینل پر آپ کتنی ہی اچھی بات کیوں نہ کریں، اگر آپ کا یوٹیوب چینل مونیٹائزڈ (یعنی یوٹیوب ویوز کی بنیاد پر آپ کو پیسے دیتا ہے) ہے تو اُس پر یوٹیوب مختلف علاقوں اور یوٹیوب چینل دیکھنے والے کے رجحان کے مطابق اشتہارات چلاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی بات سننے کے بعد میں نے پہلے تو یہ فیصلہ کیا کہ جب تک اس معاملہ یعنی یوٹیوب چینل کی کمائی حلال یا حرام ہونے پر میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا میں مزید وی لاگ نہیں کروں گا۔
میں نے فوری طور پر پاکستان کے چند ایک جید علمائے کرام سے رابطہ کیا اور اُن کو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیان کے حوالے سے اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور اُن سے درخواست کی کہ میری رہنمائی فرمائیں۔ مجھے بتایا گیا کہ اس معاملہ پر پہلے ہی چند ایک فتوے موجود ہیں۔ ان فتووں میں اگر ایک طرف یہ کہا گیا کہ چونکہ اشتہارات پر یوٹیوب چینل کے مالک کا کنٹرول نہیں ہوتا تو اس لیے غیر اسلامی اشتہارات چلنے کی وجہ سے کمائی حرام ہو گی۔
تو دوسرے فتوے میں یہ بات کی گئی کہ کچھ شرائط کو پورا کرنے کے بعد یوٹیوب چینل (اگر وہ چینل خود کوئی غیر اسلامی مواد شیئر نہیں کر رہا) کی کمائی جائز ہو گی اور اس صورت میں بھی یہ کہا گیا کہ اپنی کمائی کا دس بیس فیصد صدقہ کر دیا کریں تاکہ غیراسلامی نوعیت کے اشتہارات کے حوالے سے آپ کا مال صاف ہو جائے۔
مجھے جو بات سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ علماء کرام کی نظر میں یوٹیوب چینل کی کمائی یا تو حرام ہے یا اگر کسی کی نظر میں جائز ہے تو کچھ شرائط کے ساتھ اور حاصل کی گئی کمائی کے مال کے کچھ حصہ کو صدقہ کرنے کی صورت میں یعنی دوسری صورت میں بھی ایسی کمائی گویا مشکوک ہی ہے۔
شہباز شریف بمقابلہ شاہد خاقان
یہ صورت حال جان کر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب میں اپنے یوٹیوب چینل پر وی لاگز کو مونیٹائز نہیں کروں گا یعنی یوٹیوب سے اپنی وڈیوز کے پیسے نہیں لوں گا اور اس سے یوٹیوب میرے وی لاگز پر اشتہارات بھی نہیں چلا سکتا۔
دو تین دن کے وقفہ کے بعد میں نے اپنے وی لاگز دوبارہ شروع کیے اور اپنے دیکھنے والوں سے یہ سارا مسئلہ (یوٹیوب چینل کی کمائی حرام ہے یا حلال؟) شیئر کیا اور یہ بھی بتایا کہ میری ویڈیوز یعنی وی لاگ پر اب یوٹیوب کوئی اشتہار چلانے کا حق نہیں رکھتا۔
اس پر میرے چند ایک ویورز نے یہ سوال اُٹھایا کہ اب تو پھر آپ کو جیو نیوز سے بھی استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ وہاں بھی غیر اسلامی اشتہارات آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ میرا جیو نیوز سے کوئی تعلق نہیں۔ میں تو دی نیوز اخبار میں ملازمت کرتا ہوں، جنگ اخبار میں میری خبروں کا ترجمہ اور کالم شائع ہوتے ہیں۔ میرا کسی ٹی وی چینل سے کوئی تعلق نہیں، میں تو پرنٹ کا صحافی ہوں اور اگر پھر بھی کسی کو اعتراض ہے تو میری طرف سے اس کالم کے ذریعے میرا جیو نیوز سے استعفیٰ حاضر ہے۔
اصل سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یوٹیوب چینل کی کمائی غیر اسلامی اشتہارات کی وجہ سے حرام یا مشکوک ہوتی ہے تو پھر اینکرز سمیت ٹی وی چینل پر کام کرنے والوں کی کمائی کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ میں نے یہ سوال علماء کے سامنے بھی رکھا اور جو جواب مجھے ملا وہ یہ تھا کہ یوٹیوب چینل کے مالک آپ خود ہیں اس لیے اس کے اشتہارات کی کمائی کے جائز اور ناجائز ہونے کا ذمہ بھی آپ کے اپنے سر ہے۔ ٹی وی چینلز میں کام کرنے والے صحافی چینل کے مالک نہیں اس لیے وہاں چلنے والے اشتہارات کے حلال اور حرام ہونے کی ذمہ داری چینل کے مالک اور مینجمنٹ پر آتی ہے۔
اس سلسلے میں میں نے محترم مفتی تقی عثمانی کو ایک سوال لکھ کر بھیجا ہے جس کے جواب کا انتظار ہے اور جب یہ جواب ملا تو اُسے بھی اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ضرور شیئر کروں گا۔
بہرحال بحیثیت ایک مسلمان، ایک پاکستانی اور ایک صحافی میں تو پہلے ہی ٹی وی چینلز بشمول جیو پر چلنے والے بے ہودہ اشتہارات ، ڈراموں یا انٹرٹینمنٹ کے نام پر قابل اعتراض مواد کے خلاف آواز اُٹھاتا رہتا ہوں اور یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ پیمرا سمیت متعلقہ اتھارٹیز میڈیا کے ذریعے فحاشی اور عریانیت کو معاشرے میں پھیلنے سے روکیں۔یہ وہ ذمہ داری ہے جو ہر پاکستانی پر عائد ہوتی ہے تاکہ ہم اپنے میڈیا کو خرافات سے پاک کر سکیں۔