نواز شریف الیکشن نہ لڑ پائے تو ن لیگ کا کیا ھو گا؟

سپریم کورٹ کے ہاتھوں عوامی عہدوں کے لیے نااہل ٹھہرائے گئے نواز شریف کو اگر وطن واپسی پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملی تو وہ صرف اپنی جماعت کی انتخابی مہم کی قیادت ہی کرسکیں گے اور اس وقت کی فضا میں ان کی قیادت میں چلائی گئی انتخابی مہم مسلم لیگ (ن) کو وا ضح اکثریت نہیں دلوا پائے گی ۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار نصرت جاوید نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہر وقت کا اپنا ’سچ‘ ہوتا ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ’سچ‘ بھی بدلتا رہتا ہے اور اس کی حمایت میں نئے دلائل ایجاد کرنا ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ جو سوچ ہمیں آج راستہ دکھاتی روشنی کی طرح محسوس ہورہی ہے آنے والے دنوں میں بجھ چکی ہوگی۔

نواز شریف کی 21اکتوبر کے دن وطن واپسی کے موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ 2019ءکے آخری مہینے میں جب نواز شریف کو علاج کی خاطر لاہور کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا تو وہ اس وقت ایک ’سزا یافتہ قیدی‘ کے طورپر جیل میں مقیم تھے۔انھیں جس انداز میں بدعنوانی کا مجرم ٹھہرا کر سزا سنائی گئی تھی وہ ’انصاف‘ ہر گز نہیں تھا ۔ مگر یہ ب قانونی حقیقت بھی بدل نہیں سکتی کہ اگر 21 اکتوبر کو نواز شریف وطن لوٹتے ہیں تو ایئرپورٹ اترتے ہی انھیں اپنے گھر نہیں بلکہ جیل جانا ہوگا جہاں سے پہلے وہ ہسپتال اور بعدازاں لندن’بھجوائے‘گئےتھے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ’بھجوائے‘ کا لفظ میں نے برجستہ نہیں لکھا ہے۔ بھجوائے‘ جانے کے عمل میں کلیدی کردار ان دنوں کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ادا کیا تھا۔ قمر جاوید باجوہ کو یقین تھا کہ اپنی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کے علاج کی خاطر 2018ءکے انتخابات سے چند ماہ قبل لندن گئے نواز شریف وطن نہیں لوٹیں گے۔ ان کی عدم موجودگی میں تاہم سابق وزیر اعظم اور ان کی دختر کے خلاف احتساب عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت جاری رہی۔ اس کے اختتام پر دونوں باپ بیٹی کو ان کی عدم موجودگی میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت سزا سنادی گئی۔ سزائیں سنادی گئیں تو ہماری ریاست کے چند دائمی اداروں کی سرپرستی میں ’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘ کے لیے تیار ہوئے ’ذہن سازوں‘ نے یہ ثابت کرنے کو بھی ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کردیا کہ محترمہ کلثوم نواز کو کوئی موذی مرض لاحق نہیں ہے۔ وہ لندن میں ’ہسپتال نما‘ ایک ایسی عمارت میں رہائش پذیر ہیں جسے بیماروں کا ’ریسٹ ہاﺅس‘کہا جاسکتا ہے۔ شریف خاندان کو ’جھوٹا‘ ثابت کرنے کے لیے لندن میں مقیم تحریک انصاف کے کئی جنونی حامی مذکورہ ’ہسپتال نما‘ عمارت میں گھس کر سچ کو بے نقاب کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہتے۔ ان کی سفاکی شریف خاندان سے اندھی نفرت میں حیران کن فراخ دلی سے برداشت کرلی گئی۔

نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ 25جولائی 2018ءکا دن انتخاب کے لیے طے ہوگیا تو اس کے انعقاد سے چند روز قبل نواز شریف اپنی شریک حیات کو بستر مرگ پر چھوڑ کر مریم نواز سمیت لاہورآگئے۔ لاہور لوٹتے ہوئے نواز شریف کو ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ ان کے استقبال کے لیے جمع ہوا ہجوم اپنی تعداد اور جذبے سے ریاست کو دہلا کرر کھ دے گا۔وہ انھیں ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کی ہمت نہیں دکھائے گی۔ ملکی سیاست کے دیرینہ کھلاڑی ہوتے ہوئے وہ جبلی طورپر جانتے تھے کہ 2018ءکے انتخابات سے قبل وہ لاہور ایئرپورٹ اترکر اپنی بیٹی سمیت جیل نہ گئے تو تحریک انصاف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس کے چند ہی برس بعد مسلم لیگ (ن) ویسے ہی بھلادی جائے گی جیسے قیوم خان اور ممتاز دولتانہ کی قیادت میں قائم مسلم لیگ ماضی میں بھلادی گئی تھیں۔

25جولائی 2018ءکے دن نواز شریف کا جرات سے وطن لوٹنا درست فیصلہ ثابت ہوا۔ان کی جماعت اکثریت تو حاصل نہ کر پائی مگر ’آر ٹی ایس بیٹھ‘ جانے کے باوجود وسطی پنجاب میں اس کا ’ووٹ بینک‘پوری قوت سے موجود دکھائی دیا۔اس روز آئے نتائج نے ان دنوں کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو بوکھلادیا تھا۔ جنرل فیض حمید ان کے کلیدی ’سیاسی انجینئر‘ تھے۔26جولائی کو انھیں طلب کرکے جنرل باجوہ نے نہایت درشت الفاظ میں اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ اپنے دفاع میں فیض حمید مصر رہے کہ نواز شریف کی گرفتاری نے ’متوقع نتائج‘ فراہم کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔

نصرت جاوید کے مطابق عمران خان کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھانے سے قبل ہی لہٰذا فیصلہ ہوگیا تھا کہ نواز شریف کو جیل سے باہر نکال کر لندن بھیجنے کی کوئی صورت نکالی جائے۔ سوچا گیا کہ اس کا حصول شہباز شریف کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔ نواز شریف کے چھوٹے اور میری دانست میں پرخلوص بھائی ہوتے ہوئے وہ یقینا اپنے بھائی کی زندگی آسان کرنا چاہ رہے تھے۔ باجوہ کی لگائی گیم میں حصہ ڈالنے کو لہٰذا تیار ہوگئے۔ نواز شریف کی ایک ’ڈیل‘ کے تحت لندن روانگی نے ان کے ووٹ بینک اور سیاست کو ہرگز نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ تحریک انصاف انھیں ’بھگوڑا‘ ہونے کے طعنے دیتی رہی مگر عمران حکومت کے دوران جو ضمنی انتخابات ہوئے پنجاب میں انھیں مسلم لیگ (ن) مریم نواز کی قیادت میں چلائی مہم کی بدولت جیتتی رہی۔حتیٰ کہ پرویز خٹک کے آبائی حلقے سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی مسلم لیگ (ن)نے جیت لی ۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ وقت مگر اب بدل چکا ہے اور اس وقت کی اپنی حقیقت‘ یہ ہے کہ چند ماہ بعد جو انتخابات ہونا ہیں ان سے قبل نواز شریف یا ان کی جماعت کے سرکردہ رہ نما نہیں بلکہ عمران خان اور ان کے چند ثابت قدم ساتھی جیل میں ہیں۔جیل میں ہونے کی وجہ سے کسی سیاستدان کو ’ہمدردی‘ کا جو ووٹ ملتا ہے وہ اب کی بار تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کے کام آئے گا۔ شہباز حکومت کی قیادت میں اپریل 2022ء میں جو حکومت قائم ہوئی تھی اسے دورِ حاضر کی ناقابل برداشت مہنگائی کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ہمارے غریب اور نچلے متوسط طبقے کی اکثریت اس حکومت سے نفرت کی وجہ سے ’بلے‘ کے نشان پر مہرلگانے کو بے تاب ہے۔ ایسے حالات میں نواز شریف اگر وطن لوٹے۔ ان کے وطن آنے سے قبل ’حفاظتی ضمانت‘ کا ’بندوبست‘ بھی ہوگیا تو پیغام یہ جائے گا کہ ’مقتدر‘ کہلاتی قوتیں اب کی بار نوازشریف کی جماعت کو برسراقتدار لانا چاہ رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد کے لئے ایک بار پھر قانونی مشکلات ہیں کیونکہ ’حفاظتی ضمانت‘ کا بندوبست ہوجانے کے باوجود فی الوقت یہ بات یقینی نہیں ہے کہ ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے سپریم کورٹ کے ہاتھوں عوامی عہدوں کے لیے نااہل ٹھہرائے نواز شریف کو قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے بطور امیدوار کھڑے ہونے کی اجازت ملے گی یا نہیں۔مطلوبہ اجازت نہ ملی تو نواز شریف محض اپنی جماعت کی انتخابی مہم کی قیادت ہی کرسکیں گے اور اس وقت کی فضا میں ان کی قیادت میں چلائی انتخابی مہم مسلم لیگ (ن) کو وا ضح اکثریت نہیں دلواپائے گی۔اسی باعث نہایت دیانتداری سے میں اصرار کروں گا کہ اپنا ’بھرم‘ برقرار رکھنے کی خاطر نوازشریف 21 اکتوبر کے دن وطن آنے سے گریز کریں

Back to top button