نواز شریف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کالعدم قرار دیکر باعزت بری کر دیا، تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ پانامہ پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر دائر تمام ریفرنسز میں بریت کے باوجود کیا سابق وزیر اعظم نواز شریف آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے ہیں؟
عدالتی فیصلوں کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہو چکی ہے اور وہ انتخاب لڑنے کے اہل ہو چکے ہیں۔سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق ’جس طرح سے آج نیب کے ثبوتوں کا پوسٹ مارٹم ہوا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات صرف اس لیے بنائے گئے تھے کہ انھیں سیاست سے باہر کیا جائےلیکن آج نواز شریف ان تمام مقدمات میں سرخرو ہوگئے ہیں اور ان کی نااہلی بھی ختم ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملاً ختم دیا گیا ہے۔’اس حوالے سےسپریم کورٹ نےبھی نوٹس لیا ہے اور الیکشن شیڈول آنے تک اس پر صورت حال بالکل کلیئر ہو جائے گی لیکن ہمیں یقین ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے قانون ک فوقیت ملے گی۔‘
تاہم دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دینے کے فیصلے پر آئینی ماہرین نے متضاد رائے کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں جبکہ سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات ہے۔ بعد میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کر کے نااہلی کی مدت پانچ سال کردی گئی ہے۔ پارلیمان کی جانب سے نااہلی کی مدت کے تعین کے بعد میاں نواز شریف کی نااہلی کی مدت ختم ہو چکی ہے مگر اس کا فیصلہ بہرحال سپریم کورٹ کریگی۔ پیر کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد کا نوٹس لیا ہے اور اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کا معاملہ لارجر بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھیج دیا اور اس کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہو گی۔
اس حوالے سے نواز شریف کے وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ’اب نواز شریف کے الیکشن لڑنے کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اول تو نواز شریف کو ٹرائل سے پہلے سزا سنائی تھی جو کہ دنیا کے کسی قانون کے مطابق درست نہیں تھی۔ دوسرا سپریم کورٹ کے حکم پر نیب عدالتوں نے جو سزائیں سنائی تھیں وہ بھی قانونی طور پر غلط ثابت ہو چکی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ سپریم کورٹ نے بھی درست سزا نہیں سنائی تھی۔‘انھوں نے کہا کہ ’جب پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ قرار دے دیا ہے کہ جس جرم کی سزا میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا اس میں نااہلی پانچ سال ہوگی تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب ماہر قانون اکرام چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ہائی کورٹ سے تمام مقدمات میں بریت کے باوجود نواز شریف کی تاحیات نااہلی اب تک برقرار ہے۔’سپریم کورٹ نے اس حوالے سے نوٹس لیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ قرار دے دے کہ پارلیمنٹ کا قانون درست ہے اور وہی لاگو ہوگا تو نواز شریف کی تاحیات نااہلی ختم ہوسکے گی۔ بصورت دیگر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘انھوں نے کہا کہ ’بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی نواز شریف کے حق میں جائے گا لیکن آج کی تاریخ میں نواز شریف الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔‘
دوسری جانب مبصرین کے مطابق نواز شریف کی بریت کے فیصلے سے ان کا ووٹ بینک تونہیں بڑھے گا لیکن ان کیلئے الیکشن لڑنے کا راستہ ہموار ہوجائے گا،ملک وہی عدالتیں ہیں کوئی نیا ثبوت نہیں لیکن کل سزائیں آج بریت کیونکہ غلطیوں کا ازالہ ہورہا ہے،جب تک انصاف کے پیمانے سب کیلئے ایک نہیں ہوں گے اس وقت تک ملک پٹری پر نہیں چڑھے گا۔ سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق جب تک عدالتیں سب طرف انصاف نہ دے رہی ہوں تب تک شفاف ٹرائل کا تاثر قائم نہیں ہوتا، 2018ء میں عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جارہا تھا تو نواز شریف کو ہر مقدمے میں سزا ہورہی تھی ، عدلیہ اس وقت بھی جانبدار تھی اب بھی ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے ساتھ سلوک کچھ ہے اور ن لیگ کے ساتھ سلوک کچھ اور ہے، جب تک انصاف کے پیمانے سب کیلئے ایک نہیں ہوں گے اس وقت تک ملک پٹری پر نہیں چڑھے گا۔ ریما عمر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کیخلاف جو فیصلے دیئے گئے وہ قانونی طور پر غلط تھے آج وہ واپس ہورہے ہیں تو اچھی بات ہے، عمران خان کے ساتھ جو آج ہورہا ہے وہ نواز شریف سے مختلف معاملہ ہے، عمران خان کے معاملات کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے کہ عدالت پھر سے ناانصافی نہ کرے، عمران خان کیخلاف توشہ خانہ کیس، سائفر کیس اور پی ٹی آئی کی سیاسی پراسیکیوشن نہیں ہونی چاہئے، اس سے ہمارے نظام انصاف اور آئندہ انتخابات پر سوالات اٹھیں گے۔ نواز شریف کو سزائیں غلط دلوائی گئیں تھیں لیکن ختم بھی غلط طریقے سے ہو رہی ہیں،جب کوئی سیاستدان زیر عتاب ہوتا ہے تو اس کے خلاف فیصلے آتے ہیں اور جب زیر نظر ہوتا ہے تو بڑے بڑے جرائم پر بھی سرف نظر کیا جاتا ہے،نوازشریف کی واپسی کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جتنی بھی ان کی قانونی مشکلات ہیں وہ ختم ہوجائیں گی۔