نواز لیگ کے کونسے لوگ اپنے راستے جدا کرنے والے ہیں؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ مفتاح اسماعیل کو وزارت خزانہ سے رخصت کیے جانے کے بعد نواز لیگ کے اندر ایک دھڑا چوہدری نثار علی خان کی طرح پارٹی سے راستے جدا کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو تبدیل کرنے کا فیصلہ محض اتفاق نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال سے ہے۔ یہ فیصلہ خود حکمران مسلم لیگ (ن) کے اندر جنم لینے والی اس رسہ کشی کا نتیجہ ہے جس کے اثرات 2023 کے الیکشن میں نظر آسکتے ہیں۔ یہ فاصلے اب بڑھ رہے ہیں، اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اوران کے چند ساتھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں جس نے پارٹی کے ایک بنیادی رکن چوہدری نثار علی خان کو نواز لیگ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ فیصلہ بہر حال خود نواز شریف کو کرنا ہے کہ آنے والے وقت میں ان کی جماعت کی قیادت کون کریگا۔ تاہم کچھ سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کے اس تھیسس سے اتفاق نہیں کرتے اور یاد دلاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی ہو یا نواز لیگ، جس بھی پارٹی لیڈر نے نام نہاد اصولی اختلاف کی بنیاد۔پر اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے کی کوشش کی وہ پٹ گیا اور گمنامی کا شکار ہوگیا چاہے وہ چوہدری نثار علی خان ہو یا کوئی اور۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی حرکت عموما وہی سیاستدان کرتے ہیں جو اپنی پارٹی سے زیادہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قریب اور حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں۔

دوسری جانب مظہر عباس کہتے ہیں کہ مفتاح اسمعیل کے جانے کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ ایک حکومت اور دو وزرائے اعظم میں پھنسے وزیر خزانہ کو ہر فیصلے کیلئے اجازت موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم نواز شریف سے لینا پڑتی تھی۔ اس دن بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا تھا مفتاح نے لندن فون کیا تو وہاں سے جواب ملا کہ میرے فون کا انتظار کریں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وقت تیزی سے نکل رہا تھا۔ لہٰذا وزیر خزانہ نے وزیراعظم کو فون کیا کہ قیمتیں بڑھانا ضروری ہیں، انہوں نے ساتھ میں ایک میسج میاں صاحب کو بھی کردیا۔ لندن سے تو جواب نہیں آیا مگر شہباز نے مفتاح کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دے دی۔ نوٹیفکیشن جاری ہوا تو میاں صاحب کا ناراضی والا فون آ گیا جس پر دو وزرائے اعظم میں گھرے وزیر نے کہا کہ میں نے آپ کو پیغام بھیجا تھا مگر آپ کا فون نہیں آیا۔ اسکے بعد شہباز صاحب نے اجازت دے دی تھی لہذا فیصلے کا اعلان کر دیا گیا۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ بات صرف وزیر خزانہ تک محدود نہیں۔ میاں صاحب کی لندن میں اپنی ایک کچن کیبنٹ ہے جس نے اکثر مفتاح کی معاشی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔ اسکے علاوہ مریم نواز بھی مفتاح کے فیصلوں سے طنزیہ انداز میں اختلاف کرتی رہیں۔ جواب میں وزیر خزانہ کے دفاع میں سب سے زیادہ شاہد خاقان بولتے رہے۔ اس دوران پارٹی کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس میں نواز شریف ویڈیو لنک پر موجود تھے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس دوران گرم گرم گفتگو میں مفتاح اسماعیل کا دفاع کرتے ہوئے خاقان عباسی نے اسحاق ڈار سے کہہ ڈالا کہ لندن میں بیٹھ کر باتیں کرنا آسان ہے، آپ ملک واپس آئیں اور زمینی حقائق کا سامنا کریں۔ اس پر مریم نواز نے سوال اٹھایا کہ اس سے پہلے یہ بتائیں کہ حکومت نے میاں صاحب کی واپسی کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ تاہم نواز شریف نے خاقان عباسی کی گفتگو کا برا منایا اور میٹنگ کا بائیکاٹ کر کے اٹھ گئے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں اندرون خانہ بہت سی باتیں ہوتی ہیں اور اب تو آڈیو اور ویڈیو لیک کے بعد پتا نہیں کیا کیا باہر آجائے، مگر مسلم لیگ(ن) کے لیے آئندہ الیکشن مشکل ہوگیا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت یہ واضح تقسیم تھی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے بعد جلد عام انتخابات کی طرف جانا ہے مگر اتحادیوں میں اتفاق رائے نہیں تھا پھر بہرحال شہباز شریف کے پاس بھی یہ ایک موقع تھا وزیر اعظم بننے کا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز صاحب نے تحریک سے پہلے ہی مفتاح کو اشارہ دےدیا تھا کہ تیاری پکڑلو، یہ ویسے ہی تھا جیسے عمران نے 2018 میں اسد عمر کو الیکشن سے پہلے ہی وزیر خزانہ بنا دیا تھا۔ مگر مفتاح کی مشکل یہ رہی کہ چاہے IMF سے بات کرنی ہو یا کوئی اور فیصلہ، منظوری دو جگہ سے ضروری تھی۔ IMF کے سے بات کرنے امریکہ جانا ہو تو پیغام آتا تھا کہ لندن سے ہوتے ہوئے جانا۔ اسحاق ڈار اور مفتاح کے درمیان تلخی واضح تھی یہاں تک کہ ایک بار میاں صاحب سے کہا گیا کہ آپ کو لندن میں لوگ غلط اعدادو شمار دے رہے ہیں۔ اس دوران سیاسی محاذ پر بھی معاملات ٹھیک نہیں رہے۔ پنجاب میں تبدیلی بہت بھونڈے انداز میں کی گئی اور پھر حمزہ شہباز کے فیصلے پر تو کہتے ہیں کہ نیوٹرلز بھی خوش نہیں تھے کیونکہ وہ پہلے ہی عثمان بزدار سے تنگ تھے۔ کچھ سینئر رہنمائوں کا خیال تھا کہ پارٹی میں اور بھی بہت قابل لوگ موجود ہیں۔ پھر ایک بڑی سیاسی غلطی ان لوگوں کو ٹکٹ دینا تھی جو 2018 میں آزاد لڑ کر جیتے اور پھر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) 20 میں سے 15 نشستیں ہار گئی کیونکہ مقامی قیادت نے بغاوت کردی۔ یہ کہنا کہ یہ پی ٹی آئی کی سیٹیں تھیں حقائق کے برخلاف ہے کیونکہ زیادہ تر امیدوار آزاد لڑ کر جیتے تھے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا ’ حمزہ کی شیروانی چوہدری پرویز الٰہی کو فٹ آگئی‘۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ان چند ماہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب شہباز شریف نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورے کے بعد لندن میں بڑے بھائی کو بھی بتا دیا۔ اس پر انہیں پہلے کہا گیا کہ قومی اسمبلی توڑ دیں مگر شہباز کا موقف تھا کہ اس میں اتحادیوں کا کیا قصور ہے میں خود ہی الگ ہو جاتا ہوں۔ وہ اسمبلی سے خطاب میں اپنے استعفے کا اعلان کرنے والے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مفتاح اسماعیل قطر روانہ ہوئے تو لندن سے پیغام ملا کہ مزید مذاکرات نہیں ہونے کیونکہ ہم حکومت ختم کرنے جارہے ہیں۔ مگر جب جہاز اترا تو فون پر دوسرا پیغام تھا کہ حکومت اب الیکشن تک چلے گی جو مقررہ وقت پر ہونگے۔ کہتے ہیں یہ صورتحال عمران خان کی اسلام آباد میں 25 مئی کی چڑھائی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ویسے بھی خان صاحب اپنے خلاف خود ہی بیانیہ بنا لیتے ہیں اور شاید اب کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایک ایسا موقع بھی آیا جب کچھ غیر سیاسی لوگوں نےملک کے چیدہ چیدہ ماہرینِ معاشیات کو ایک ٹیبل پر بٹھا دیا۔ ان میں مفتاح اسماعیل، شوکت ترین اور حفیظ شیخ بھی شامل تھے کیونکہ بات نگران حکومت تک آگئی تھی۔ کہتے ہیں اس میٹنگ میں سٹیٹ بینک کے سابق گورنر رضا باقر بھی شامل تھے مگر IMF کے بارے میں یہ بریف کیا گیا کہ وہ نگرانوں سے مذاکرات یا معاہدہ نہیں کرے گا۔ اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چارج سنبھال لیا ہے۔ مفتاح کے مقابلے میں انہیں آسانی یہ ہے کہ انہیں دووزرائے اعظم سے منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ان کے آتے ہی ڈالر بھی تیزی سے نیچے آنا شروع ہو گیا ہے جیسے ڈالر کو انکی واپسی کا ہی انتظار تھا۔ ڈار کے پاس معیشت سیدھی کرنے کے لیے اسوقت چھ مہینے ہیں، لیکن محکمہ سیاسیات نے عمرانی طوفان کی پیشگوئی کی ہے جس کے بعد حکومت نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو حفاظتی بند باندھنے کا ٹاسک دےدیا ہے۔

Back to top button