کیا نثار کسی نئے مشن کے تحت حلف لے رہے ہیں؟

پنجاب اسمبلی کی رکنیت پر تھوکنے کے بعد اب اسے چاٹنے کا فیصلہ کرنے والے چوہدری نثار علی خان ایک مرتبہ پھر خبروں میں آ چکے ہیں اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا تین برس بعد انکے اچانک بطور رکن پنجاب اسمبلی حلف اٹھانے کے فیصلے کے پیچھے کوئی خفیہ سیاسی ایجنڈا تو کار فرما نہیں؟
بظاہر ان کے اچانک حلف اٹھانے کی فوری وجہ تو وہ مجوزہ حکومتی قانون لگتا ہے جس کے تحت اگر کوئی رکن منتخب ہونے کے بعد 90 دن تک حلف نہیں اٹھاتا تو وہ نااہل تصور کیا جائے گا اور جس نشست سے وہ منتخب ہوا اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کا انعقاد کیا جائے گا۔سیاسی مبصرین چوہدری نثار کے اس فیصلے کو تحریکِ انصاف کے اس اقدام سے منسلک کر رہے ہیں تاہم چوہدری نثار علی خان نے بذاتِ خود ایسا کوئی تاثر نہیں دیا ہے بلکہ اس کی دیگر وجوہات بیان کی ہیں۔
یاد رہے کہ نثار علی خان ایک فوجی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستانی سیاست میں ایک پراسرار کردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ اہم عہدوں پر بھی فائز ہوتے ہیں مگر اپوزیشن میں مزاحمتی سیاست سے ہمیشہ دور اور الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کا اسٹیبلشمینٹ نواز ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے تو وہ اندر گراونڈ رہتے ہی ہیں لیکن اقتدار میں بھی ان سے رابطہ کرنا اہل اقتدار والوں کے لیے اتنا سہل نہیں ہوتا۔ نثار کے بارے میں مشہور ہے کہ جب پارٹی پر مشکل وقت آتا ہے تو وہ کبھی بھی باقی ساتھیوں کے ساتھ احتجاج کرتے نظر نہیں آتے۔ وہ اپنے بارے میں خود یہ کہتے ہیں کہ پارٹی میں وہ اتنے ہی سینیئر ہیں جتنے نواز شریف ہیں اور یہ کہ مسلم لیگ صرف کسی ایک شخص کی جماعت نہیں ہے۔ نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نا اہلی اور پھر قومی احتساب بیورو (نیب) کی ایک عدالت میں ٹرائل کے دنوں میں وہ وزارت داخلہ سے مستعفی ہو گئے اور پھر نواز شریف اور مسلم لیگ ن سے بھی دوری اختیار کرتے چلے گئے۔
یاد رہے کہ 2018 کے عام انتخابات سے پہلے نثار علی خان نے مریم نواز کی لیگی سیاست میں حصہ لینے پر اظہار ناگواری کرتے ہوئے انہیں کل کی بچی قرار دیا تھا اور پھر وہ الیکشن میں آزاد حیثیت سے میدان میں اترے جس کا خمیازہ انہیں قومی اسمبلی کی دونون نشستوں پر شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ لیکن وہ گائے کے انتخابی نشان پر صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ میں جیتنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ تاہم وہ پنجاب سمبلی میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے تھے اس لئے یہ اعلان کردیا کہ وہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ کا حلف نہیں لیں گے۔ بعد ازاں ان سے جب بھی پوچھا گیا کہ کیا وہ پنجاب اسمبلی کی نشست کا حلف لے رہے ہیں تو چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وہ تھوک کر چاٹنے پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم اب تین برس بعد نثار علی خان کا موڈ بدل چکا ہے اور وہ اپنا تھوکا چاٹنے کے لیے تیار ہیں۔
ان پر یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ جب پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 میں مارشل لا نافذ کر دیا تو چوہدری نثار نے اپنے آپ کو گھر تک ہی محدود کر لیا۔ تب ان کے بڑے بھائی لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خان سیکرٹری دفاع تھے جنہوں نے جنرل ضیاء الدین بٹ کا بطور آرمی چیف تقرری کا نوٹی فکیشن روکے رکھا اور اسی دوران مشرف کے وفاداروں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ مشرف دور میں میں مکمل طور پر خاموشی اختیار کرنے والے نثار خود ہر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں ان کے فیض آباد والے گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا اور ان پر پارٹی چھوڑنے سے متعلق دباؤ ڈالا جاتا رہا مگر انھوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
یاد رہے کہ حقیقی زندگی میں مکمل طور پر گنجے چوہدری نثار علی خان اپنا سر وگ سے ڈھانپتے ہیں اور ان کا تعلق راولپنڈی کے قریب چکری کے علاقے سے ہے جہاں سے اُنھوں نے پنجاب اسمبلی کی نشست بھی جیتی۔ وہ راولپنڈی کی سیاست میں بھی خاصے متحرک رہتے ہیں۔ جب سے مسلم لیگ ن وجود میں آئی ہے وہ اس جماعت کی صف اوّل کی قیادت میں رہے ہیں اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک ن لیگ کے پلیٹ فارم سے ہی انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلے سے قبل ایچی سن کالج کے دنوں سے ان کی عمران خان سے دوستی چلی آ رہی ہے اور اب بھی دونوں رہنماؤں کے آپس میں اچھے روابط ہیں مگر چوہدری نثار علی خان نے کبھی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہیں کی جسکی بنیادی وجہ ان کی تحریک انصاف کے غلام سرور خان سے سیاسی چپقلش ہے۔
جب 2014 میں تحریک انصاف نے الیکشن 2013 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا تو عمران خان نے خود فون کر کے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ڈی چوک تک آنے کے لیے مدد مانگی تھی۔ نواز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چوہدری نثار کے مؤقف میں خاصی سختی ہوتی ہے اس وجہ سے بعض دفعہ اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتوں میں ان کو ساتھ لے کر ہی نہیں جاتے۔ مسلم لیگ کے سینیئر رہنماؤں کے مطابق نواز شریف نے اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں چوہدری نثار کے مشوروں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ ڈان لیکس کی انکوائری میں سابق سینیٹر پرویز رشید سے متعلق نثار کی وزارتِ داخلہ کی تیار کردہ رپورٹ کو بھی پارٹی میں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا۔ اس رپورٹ میں پرویز رشید کو بھی ڈان اخبار میں اس خبر کے شائع ہونے پر مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ پارٹی میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ نواز شریف کی نسبت چوہدری نثار کی زیادہ دوستی شہباز شریف سے ہے کیونکہ دونوں کا سیاسی قبلہ ایک ہے۔ چوہدری نثار کے نواز شریف سے سیاسی اختلافات کو سمجھنے کے لیے پہلے نواز شریف کی فیصلہ سازی میں ان کے اثر و رسوخ پر ایک نظر دوڑانا ضروری ہے۔
نواز شریف پاکستان کی سیاست میں سب سے زیادہ آرمی چیفس تعینات کرنے والے وزیر اعظم ہیں۔ نواز شریف کو جب بھی کسی آرمی چیف کی تقرری کا اہم مرحلہ درپیش رہتا تو ایسے میں چوہدری نثار علی خان کی رائے کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان کی سیاست میں یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ پرویز مشرف کی آرمی چیف کی تقرری میں بھی چوہدری نثار علی خان کا اہم کردار رہا ہے۔ اُس وقت چوہدری نثار علی خان نواز شریف کی کابینہ کا حصہ تھے اور اسی دور حکومت میں ان کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان سیکریٹری دفاع کے عہدے پر براجمان تھے۔
چوہدری نثار کے والد چوہدری فتح محمد فوج میں بریگیڈیئر رہے۔ ان کے دادا برطانوی دور میں انگریز فوج کا حصہ تھے اور ان کی عسکری خدمات کی بدولت انھیں برطانوی فوج نے پستول کا تحفہ بھی دیا تھا۔ اس وقت بھی چوہدری نثار علی خان کے خاندان کے اکثر افراد فوج کا حصہ ہیں اور ان ہی وجوہات کی بنا پر وہ حکومت اور فوج میں ایک پل کا کردار ادا کرنے والے کے طور پر سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان کی شہباز شریف کے ساتھ رات کے اندھیرے میں آرمی چیفس سے ملاقاتیں بھی اخباروں کی شہہ سرخیاں بنتی رہی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اہم سیکیورٹی اور ملکی معاملات پر مشاورت کے لیے ایسی ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔ تاہم وہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا کے سخت ناقد رہے اور انھوں نے پارلیمنٹ کے فورم سے بھی ان پر خوب تنقید کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چوہدری نثار علی خان قائد حزب اختلاف بھی رہے اور وہ پیپلز پارٹی پر تنقید کرنے سے متعلق خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ عام طور پر وزیر اعظم عمران خان یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ انھوں نے نواز شریف اور آصف زرداری کی شراکت کا خاتمہ کیا ہے مگر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ چوہدری نثار کے باعث بھی ن لیگ سے اپنے فاصلے بڑھانے سے قبل آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان فاصلے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب آصف زرداری کے اینٹ سے اینٹ بجانے والے بیان کے بعد نواز شریف نے اُن سے ملاقات منسوخ کی تو نواز شریف کے اس فیصلے میں چوہدری نثار علی خان کی رائے کا اہم کردار تھا۔ نثار نے کبھی اس واقعے پر باقاعدہ بات تو نہیں کی تاہم ایک مرتبہ انھوں نے کہا تھا کہ ‘میں نے نواز شریف کو کہا کہ اداروں کے خلاف باتیں نہ کریں۔‘ آصف زرداری سے ملاقات کی منسوخی کے نواز شریف کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت میں عدم اعتماد، گلے شکوے اور دوریاں پیدا ہوئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق وفاقی وزیر اور موجودہ رکنِ اسمبلی کہتے ہیں نواز شریف اپنے اس فیصلے کو ایک بُرے فیصلے کے طور پر یاد رکھتے تھے۔
اس کے علاوہ جب عدالتِ عظمیٰ نے پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے یا نہ جانے دینے کا فیصلہ وفاقی حکومت پر چھوڑا تو اس وقت چوہدری نثار علی خان ہی وزیرِ داخلہ تھے جن کے ماتحت اس وقت ایگزٹ کنٹرول لسٹ آتی تھی۔ بعد میں حکومت نے پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تو چوہدری نثار علی خان تنقید کی زد میں آئے کہ یہ اُن کا ذاتی فیصلہ تھا۔ تاہم جب بھی ان سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ تھا جس پر اُنھوں نے عملدرآمد کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق وفاقی وزیر اور موجودہ رکنِ اسمبلی کے مطابق اُس وقت نواز شریف کو یہ بتایا گیا تھا کہ جب پرویز مشرف بیرون ملک چلے جائیں گے تو سول ملٹری تعلقات میں سرد مہری ختم ہو جائے گی اور حکومت بغیر دباؤ کے اپنے منشور کے مطابق عوام کی خدمت کرتی رہے گی۔
مگر ہوا یوں کہ نواز شریف تیسری بار بھی وزارت عظمیٰ کی مدت مکمل نہ کر سکے اور پانامہ مقدمے میں سپریم کورٹ سے تا حیات نااہل قرار دیے گئے۔ یہ مقدمہ جب شروع ہوا تو چوہدری نثار علی خان نے نواز شریف کو چھ رکنی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا اور جے آّئی ٹی کی تشکیل میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں پر اعتراض عائد کرنے کا بھی کہا۔ چوہدری نثار کی تجاویز کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا کیونکہ اب پارٹی کے اندر سے بھی یہ رائے زور پکڑ گئی تھی کہ چوہدری نثار کسی کی خواہش کو رائے کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔
تاہم بعد میں نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی اور پھر جے آئی ٹی رپورٹ نواز شریف کے لیے خوشگوار تجربہ نہیں رہا، جس پر چوہدری نثار نے صحافیوں سے متعدد ملاقاتوں میں بھی تذکرہ کیا کہ ان کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کی گئیں اور ان کے مشوروں اور تجاویز کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا جس کا پارٹی اور قیادت کو اس کا نقصان ہوا۔ ایک بار جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ہر اہم معاملے پر خود کیوں بیان دے دیتے ہیں اور دفتر خارجہ یا دیگر وزارتوں کو خاطر میں کیوں نہیں لاتے تو ان کا جواب تھا کہ وہ وزیر سے پہلے ایک مسلمان بھی ہیں اور جب بھی وہ کوئی بات کرتے ہیں تو دل سے کرتے ہیں اور ویسے بھی پارلیمانی نظام میں اختیارات سانجھے ہوتے ہیں۔
2018 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی دونوں سیٹوں پر شکست کھانے کے بعد سے نثارعلی خان کو ایک جلا ہوا سیاسی کاردوس قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن نثار کی سیاست کو قریب سے دیکھنے والے سینیئر صحافی نواز رضا کا کہنا ہے کہ نثار کا مستقبل میں سیاسی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق وہ خاموش بھی رہیں تو ان کی خاموشی بھی ایک خبر ہوتی ہے اور یوں وہ چپ رہ کر بھی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ نواز رضا کے مطابق نثار نے اپنے حلقے کے 30 سے 32 لوگوں کو مشاورت کے لیے بلایا کہ کیا انھیں حلف لینا چاہیے یا نہیں مگر مشاورت میں رائے منقسم رہی۔ اس کے بعد چوہدری نثار نے یہ کہہ کر اجلاس ختم کر دیا کہ وہ اب اس پر خود فیصلہ کریں گے۔ چوہدری نثار نے بعد میں ایک تحریری بیان کی صورت میں اپنا فیصلہ سنایا اور حلف لینے کا فیصلہ کیا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے بیٹے منصور علی خان نے صوبائی اسمبلی کی نشست خالی کئے جانے کی صورت میں اس پر ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا اور چودھری صاحب نہیں چاہتے تھے کہ ان کے حلقے میں الیکشن ہو اور تیسری پارٹی یہ سیٹ کے جائے۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت الیکشن جیتنے کے بعد حلف نہ لینے والوں کو نااہل کروانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ تحریکِ انصاف حکومت کا مجوزہ قانون ایک آرڈیننس کی صورت میں جاری کیا جائے گا جس کا بنیادی مقصد حلف نہ لینے والے اسحاق ڈار کو نااہل کروا کر ان کی جگہ موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین کو سینیٹر بنوانا ہے۔ تاہم ابھی تک اس آرڈیننس کا اطلاق عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کلثوم نواز لاہور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور پھر وہ بیماری کی وجہ سے حلف نہیں اٹھا سکیں۔ اور ان کی موت کے بعد یہ نشست خالی تصور کی گئی اور پھر انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔
ڈپٹی سیکریٹری قومی اسمبلی محمد مشتاق کا کہنا یے کہ اس وقت قانون میں یہ سُقم موجود ہے کہ اگر کوئی رکن منتخب ہونے کے بعد حلف نہ اٹھائے تو اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی اختیار نہیں کی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق ابھی قانون کی ضرورت اس وجہ سے ہی پیش آئی ہے کہ اس خلا کو پر کیا جائے اور منتخب ارکان کو حلف اٹھانے کا پابند بنایا جائے۔ ان کے مطابق حلف اٹھانے کے بعد اگر کوئی رکن 40 دن تک بغیر چھٹی لیے غائب رہتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی رکنیت ختم کی جا سکتی ہے اور اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کا انعقاد ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
تاہم مجوزہ قانون سازی سے پہلے ہیں چوہدری نثار علی خان نے اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست کا حلف لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری نثار نے جہاں بڑے مارجن سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی تھی وہیں اسی قدر بڑے مارجن سے انھیں قومی اسمبلی کی نشست پر شکست ہوئی۔ اس شکست سے چوہدری نثار اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ انھوں نے جیتی ہوئی نشست پر بھی احتجاجاً حلف لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس نے ٹوئٹر پر لکھا کہ چوہدری نثار نے بالآخر 2018 کے بعد سے اپنی خاموشی توڑ دی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ کیا کہ چوہدری نثار علی خان صرف حلف ہی اٹھاتے ہیں یا پھر وہ عملی سیاست میں بھی کوئی کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ مظہر عباس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی سپیکر پنجاب اسملبی چوہدری پرویز الہیٰ سے بات ہوئی ہے، جس سے انھیں ایسا لگا کہ شاید اب تین سال بعد چوہدری نثار حلف لینے کے اہل ہی نہیں رہے ہیں۔ اُن کے مطابق پرویز الہیٰ نے انھیں کہا کہ میرا نہیں خیال کہ وہ حلف اٹھا رہے ہیں اور اب یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔
سینئر صحافی نواز رضا کے مطابق چوہدری نثار کا حلف اٹھانے کا فیصلہ بہت ہی اچانک ہے اور وہ دو دن پہلے تک اس پر آمادہ نہیں تھے۔ ان کے مطابق حلقے کے لوگ یہ بات ضرور کرتے ہیں کہ اُن کے فیصلے کی تبدیلی میں کسی کا اہم کردار رہا ہے تاہم اُنھوں نے اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ اُن کے مطابق چوہدری نثار پنجاب کی سیاست پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہیں اور جو کھچڑی لاہور میں پک رہی ہے وہ اس سے بھی باخبر ہیں لہٰذا یہ حلف صرف ایک حلقے کی نشست بچانے کے لیے نہیں اٹھایا جا رہا ہے بلکہ آنے والوں دنوں میں چوہدری نثار سیاست میں اپنا اہم کردار دیکھ رہے ہیں۔

Back to top button