کامیڈین ننھا کی موت آج بھی ایک معمہ کیوں؟

معروف کامیڈین رفیع خاور کی مبینہ خودکشی کے 37 سال بعد بھی آج بھی ان کی موت ایک معمہ بنی ہوئی ہے، 2 جولائی 1986 کو معروف کامیڈین رفیع خاور المعروف ننھا نے خودکشی کر لی تھی۔

ڈرائنگ روم میں اپنے وقت کی مشہور فلم اداکار و کامیڈین کی لاش پڑی تھی اور ان کے جسم سے نکلنے والا خون ایک چھوٹے تالاب کی شکل اختیار کر چکا تھا، مردہ جسم کے ساتھ ہی ایک دو نالی بندوق پڑی تھی اور کچھ ہی فاصلے پر ایک خط جس میں لکھا تھا کہ میں اپنی مرضی سے خودکشی کر رہا ہوں لہٰذا میری موت کا ذمہ دار کسی دوسرے شخص کو نہ ٹھہرایا جائے۔

رفیع خاور المعروف ننھا کو دنیا سے گئے 35 برس ہو گئے ہیں لیکن ان کی پُراسرار موت کا معمہ آج تک حل نہیں ہوا، پولیس نے ان کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے اس کیس کی فائل بند کر دی تھی مگر ان کے بہت سے ساتھی آج بھی اس موت کو خودکشی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

جس رات ننھا کی موت واقع ہوئی اُس رات انھوں نے اپنے دوست علی اعجاز کو فون کیا تھا، علی اعجاز نے اپنی زندگی میں مجھے بتایا تھا کہ ننھا زندگی کے آخری ایام میں انتہائی ڈپریشن کا شکار تھے، انھوں نے ایک عرصہ سے شراب نوشی اپنی عادت بنا لی تھی اور اُس رات بھی وہ نشے میں تھے۔

اپنے عروج کے دور میں ننھا اپنی ساتھی اداکارہ نازلی سے عشق کرنے لگے تھے اور یہ بات بھی مشہور ہوئی کہ دونوں شادی کر چکے ہیں ہیں تاہم نازلی نے بعد میں دعویٰ کیا تھا اُن دونوں کے مابین دوستی ضرور تھی لیکن انھوں نے نکاح نہیں کیا تھا۔ ننھا کے اہلخانہ، ان کی پہلی بیوی اور بیوی کے بھائیوں کو ننھا اور نازلی کے تعلقات پر شدید اعتراض تھا اور اس عشق کا چرچہ نگار خانوں میں زبان زد خاص و عام تھا۔

رفیع خاور ننھا چار اگست 1944 کو ساہیوال میں پیدا ہوئے تھے، اُن کے والد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے جو بعدازاں لاہور کے علاقہ شاد باغ میں آ کر آباد ہوئے۔ ننھا نے اپنا نام اور مقام بڑی محنت سے بنایا تھا، وہ پیدائشی طور پر فربہ تھے اور سکول میں بچے اُن کا مذاق بھی اُڑاتے تھے۔

وضع قطع سے ننھا پہلوان دکھائی دیتے تھے لیکن ان کے اندر ایک باریک بیں اور طبع زاد فنکار بے چین تھا جو اپنے فن کے اظہار سے دنیا پر چھا جانا چاہتا تھا۔ زمانہ طالب علمی تک ننھا کو نگارخانوں اور فنکاروں سے دور رکھا گیا لیکن جب انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز نیشنل بنک سے کیا تو وہ لاہور میں آرٹس کونسل کے چکر کاٹنے لگے تھے۔

1964 میں جب لاہور سے پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو اس سے قبل کمال احمد رضوی تھیٹر اور ریڈیو میں کام کر کے اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ 1965 کے صرف تین سال بعد 1969 میں الف نون کو دوسری بار نئے سرے سے پروڈیوس کیا گیا جبکہ 1982 میں اسی ڈرامے کو رنگین ٹی وی کے لیے تیسری بار پروڈیوس کیا گیا۔ ایک ہی ڈرامے کو تین مرتبہ پروڈیوس کرنے کا یہ پی ٹی وی کی تاریخ کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔

1965 میں جب ’الف نون‘ پہلی بار آن ایئر گیا تو ننھا پاکستان میں ’فیملی آرٹسٹ‘ کی حیثیت اختیار کرگئے۔ شباب کیرانوی نے ان کی مقبولیت کو فلم میں کیش کرانے کے لیے 1966 میں انھیں اپنی فلم ’وطن کے سپاہی‘ میں کاسٹ کیا۔ اس کے بعد ننھا باقاعدہ فلمسٹار کے طور پر فلم کی بڑی سکرین سے وابستہ ہو گئے اور وہ ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر بہت کم دکھائی دیتے۔

1976 میں شباب کیرانوی کی فلم ’نوکر‘ میں اگرچہ اداکار محمد علی نے ٹائٹل رول نبھایا تھا لیکن یہ فلم ننھا سے منسوب ہو گئی تھی۔ اس فلم میں ننھا کا کردار ’کامیڈی کریکٹر ایکٹر‘ کے طور پر کنفرم ہوا جس کے بعد وہ فلم ٹریڈ کی مستقل ضرورت بن گئے، شباب کیرانوی سمیت ہر قابل ذکر پروڈکشن ہاؤس نے ننھا کو اپنی ٹیم میں شامل کر لیا۔ پنجابی فلم ’حکم دا غلام‘، ’ضدی‘، ’جال‘، ’تم سلامت رہو‘ اور ’آواز‘ میں اُن کے کردار کو پسند کیا گیا۔

ہدایتکارہ شمیم آرا کی فلم ’پلے بوائے‘ کے لیے ننھا کے کردار نے باکس آفس پوزیشن مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اس کے علاوہ ’بھروسہ‘، ’شبانہ‘، ’جدائی‘، ’باؤ جی‘، ’نکاح‘، ’صاحب جی‘، ’لوو سٹوری‘ اور ’ہسدے جاو تے ہسدے آؤ‘ میں ننھا کے کردار کو خاص توجہ حاصل ہوئی جبکہ ’ٹہکا پہلوان‘ اور ’جن چاچا‘ ایسی فلمیں ہیں جو ننھا نے ٹائٹل رولز کے طور پر کی تھیں۔علی اعجاز اور ننھا کی جوڑی پر مشتمل ’دبئی چلو‘ ایسی فلم ثابت ہوئی جس نے پاکستان فلم انڈسٹری کی اگلی دہائی دونوں فنکاروں کے نام لکھ دی تھی۔

Back to top button