ٹڈی دل کے حملے سے زرعی معیشت کو 4 ارب ڈالرکے نقصان کا خطرہ

پاکستان کے نصف سے زائد اضلاع ٹڈی دل کے شدید ترین حملوں کی زد میں ہیں۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے زرعی علاقوں کے سرسبز کھیتوں اور پھلوں کے باغات پر ٹڈی دَل قابض ہیں اور انہیں تباہ کر رہے ہیں۔ زرعی ماہرین کرونا کے بعد فصلوں اور باغات پر ٹڈی دل کے حملے سے غذائی قلت پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے بڑے حصے پر ٹڈی دل کے حملوں سے غذائی عدم تحفظ کی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔
ملک بھر میں اس وقت عوام کو کرونا وائرس کی مشکل صورتحال کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل کی خطرناک فوج کا بھی سامنا ہے جس کے باعث کسان اور زمیںدار مشکل میں ہیں۔ ٹڈی دل کے حملے سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور آم، سیب، خوبانی آڑو اور چیری کا باغات تباہ ہو چکی ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے اس کے تدارک کیلئے موثر حکمت عملی وضع نہ کرنے کی وجہ سے 25 فیصد تک ربیع اور حریف کی فصلوں کے نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افریقہ سے آنے والی ٹڈیاں پاکستان کے تقریباً 38 فی صد رقبے پر پھیل کر انڈے دیں گی۔ کچھ عرصہ بعد یہ ٹڈیاں بڑی تعداد میں افزائش نسل کر کے پاکستان کی زراعت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کل سات لاکھ 96 ہزار کلو میٹر کے رقبے میں سے تین لاکھ مربع کلو میٹر رقبہ ایسا ہے جہاں ٹڈیاں انڈے دے سکتی ہیں۔ اس میں سے 60 فی صد رقبہ بلوچستان، 30 فی صد سندھ اور 15 فی صد پنجاب میں ہے۔ پاکستان اور بھارت کا سرحدی صحرائی علاقہ چولستان ٹڈیوں کی ایگلنگ کے لیے سب سے موافق ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور زراعت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پاکستان ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات نہیں کر سکا تو ربیع کی فصلوں کو 15 فی صد اور خریف کی فصلوں کو 25 فی صد تک نقصان پہنچ سکتا ہے جس سے پاکستان کو چارارب ڈالرز کا مالی نقصان ہو گا۔
حملہ آور ٹڈی دل کے بارے پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین ملک خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کی وجہ سے زرعی شعبے سے جڑی ملکی معیشت کو بڑا خطرہ درپیش ہے۔ ٹڈی دل کے تدارک کیلئے اقدامات نہ کرنے پر ملک غذائی قلت کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ ملک خالد کھوکھر نے کہا کہ ٹڈی دل کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں غیر سنجیدہ ہیں۔ صرف پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ پر کاشت کی گئی کپاس کی فصل ٹڈی دل کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے ٹڈی دل ہر اس فصل اور درخت پر حملہ آور ہیں جو سرسبز ہے۔ ان دنوں جنوبی پنجاب میں کپاس کی کاشت اپنے آخری مراحل میں ہے اور کپاس کے سبز پودے ٹڈیوں کی پسندیدہ غذا ہیں۔ حکومت کو ٹڈی دل کے خاتمے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں اگر ٹڈی دل پھیل گئی تو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا ان کا مزید کہنا ہے کہ ٹڈی دل کرونا وائرس سے بڑی بیماری ہے۔ اگر خدا نخواستہ قحط سالی آ گئی تو پھر حالات بہت برے ہوں گے۔
کپاس کے کاشتکار محمد شعیب خان نے ٹڈی دل کے حملوں سے پہنچنے والے نقصان بارے بتایا کہ ان کی 50 ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو ٹڈی دل نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ٹڈی دل نے ان کی 70 فی صد فصل خراب کر دی اور اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی کپاس کی باقی فصل بھی ختم کر دیں۔ اسی طرح ملتان میں آم اگانے والے ملک ظفر کہتے ہیں کہ ملتان اور اس کے گرد و نواح میں آم کے درختوں پر بیٹھنے والے ٹڈیوں کے جھنڈ نے باغات کے 20 فی صد سبز پتے چٹ کر ڈالے ہیں۔ یہی پتے آم کے باغ اور پیداوار کی فیکٹریاں ہیں جنہیں ٹڈی دل نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔”اسے ٹڈیوں نے اس طرح کھایا ہے کہ آم تو بچا لیکن اس کے اردگرد سارے پتے صاف ہو چکے تھے۔ اس کا نقصان اس بار کی پیداوار کو بھی ہو گا اور آئندہ سال کی پیداوار پر بھی فرق پڑے گا۔”
واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق ٹڈیوں کی افزائش کے لئے نم زمین زیادہ موزوں ہوتی ہے اور پچھلے چند سال کے دوران زیادہ اور تیز بارشوں کی وجہ سے ان کی نشونما میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں پچھلے دو برسوں کے دوران ہونے والی شدید بارشوں نے ٹڈی کی افزائش میں مدد دی۔ ٹڈی دل کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک ٹڈی دل مادہ دو سو سے 1200 بچے دیتی ہے اور ایک سال میں اس کی تین نسلیں پروان چڑھ سکتی ہیں۔ ٹڈی دل کا ایک لشکر کئی کلو میٹر رقبے پر فصلوں کو منٹوں میں تباہ کردیتا ہے۔ ٹڈی دل کا جھنڈ روزانہ 120 کلومیٹر کا سفر کرسکتا ہے کسی بھی مقام پر یہ جھنڈ اپنی بھوک مٹانے کے لئے فصلوں اور درختوں پر حملہ کردیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ٹڈی کی روزانہ کی خوراک اس کے اپنے وزن کے برابر ہوتی ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو ایک مربع کلو میٹر پر پھیلا ٹڈیوں کا غول ایک دن میں اندازاً 35 ہزار لوگوں کی یومیہ خوراک کے برابر فصلیں اور اناج کھا جاتا ہے۔