ٹی ٹی پی کی نئے نام سے پاکستان مخالف کارروائیاں؟

خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی فورسز نے مختلف کارروائیوں کے دوران مجموعی طور پر 27 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے، تاہم ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں 12 دسمبر کی صبح قریب تین بجے چھ حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی ایک چیک پوسٹ سے ٹکرائی۔ سیکیورٹی پوسٹ پر خود کش حملے میں 23 اہلکار بھی شہید ہوئے ہیں۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریکِ جہاد پاکستان نے قبول کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں تنظیم کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ حملہ ’مولوی حسن گنڈا پور نے کیا ہے جہاں ان کے ساتھ حملہ آور تھانے کے اندر داخل ہو گئے تھے۔‘تحریک جہاد پاکستان نے ایک لمبے وقفے کے بعد کوئی بڑا حملہ کیا ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ اس حملے میں تنظیم نے جدید اسلحہ اور بھاری مقدار میں بارود استعمال کیا ہے۔اس تنظیم کی جانب سے سوشل میڈیا پیج پر ایک ایسی ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں سنائپر گن سے فائرنگ کی جا رہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ویڈیو اب کی ہے یا یہ پرانی کسی اور جگہ کی ویڈیو ہے ۔

خیال رہے کہتحریک جہاد پاکستان کے ترجمان ملا محمد قاسم ہیں اور وہ براہ رست کم ہی صحافیوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ ان واقعات کی ذمہ داری انھوں نے ٹیلی گرام پر قبول کی ہے ۔

ٹی جے پی اگرچہ زیادہ معروف شدت پسند تنظیم نہیں ہے اور تجزیہ کاروں کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ یہ شاید کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان ہی ہے۔ تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ماضی قریب میں کسی حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان یا دولت اسلامیہ کے بجائے ایک نئے شدت پسند گروہ تحریکِ جہاد پاکستان نے قبول کی ہو۔

نومبر میں پاکستان کے شہر میانوالی کی ایئربیس پر شدت پسندوں کے جس حملے میں تین جہازوں کو نقصان پہنچا تھا اس میں بھی اسی تنظیم کا نام سامنے آیا تھا۔اس سے پہلے مئی میں بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں ایف سی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔

یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے بارے میں حکام اوریہاں تک کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیدار بھی ماضی قریب تک یا تو کچھ نہیں جانتے تھے یا شاید بتانے سے گریزاں رہے۔اکثر تجزیہ کار اسے ایک پراسرار تنظیم قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس تنظیم کے ترجمان ان حملوں کی ذمہ داریاں تو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اپنی تنظیم کے خدوخال کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔یہ تنظیم اس سے پہلے چمن، بولان، سوات کے علاقے کبل اور لکی مروت میں حملوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کر چکی ہے لیکن ان میں کم از کم دو حملے ایسے ہیں جن میں اس تنظیم کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے تھے۔

خیال رہے کہ اس تنظیم کا نام چند ماہ پہلے ہی سامنے آیا جب اس تنظیم نے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری پہلی بار قبول کی تھی۔

سینیئر صحافی اور خراسان ڈائری کے ڈائریکٹر نیوز احسان اللہ ٹیپو نے اس بارے میں بتایا تھا کہ اس سال فروری میں انھیں ٹیلی فون پر پیغام موصول ہوا تھا جو بظاہر کسی یورپی ملک کے نمبر سے تھا۔’کال کرنے والے شخص نے اپنا نام ملا محمد قاسم بتایا اور کہا کہ انھوں نے ’تحریک جہاد پاکستان‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی ہے لیکن اس تنظیم کے بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس کے دو دن بعد موبائل فون پر ایک میسج آیا جس میں کہا گیا کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری وہ اپنی تنظیم کی جانب سے قبول کرتے ہیں۔

پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں شدت پسندی اور اس سے جڑے مسائل پر گہری تحقیق کرنے والے تجزیہ کار عبدالسید نے بتایا کہ ’تحریک جہاد پاکستان‘ اب تک ایک پراسرار تنظیم ہے جس کی قیادت، ارکان اور وجود کے کوئی شواہد نہیں۔بعض صحافیوں کو بھیجے گئے مختصر تحریری پیغامات کے ذریعے اس تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا کچھ صحافیوں کو تحریری پیغامات بھیج کر شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہیں۔اب تک اس تنظیم کے سربراہ و ترجمان کے نام متعارف کیے گئے ہیں لیکن ان کے ماضی یا حقیقی کردار ہونے سے متعلق کوئی شواہد نہیں۔اس تنظیم کے ترجمان اپنا نام ملا محمد قاسم لکھتے ہیں، جنھوں نے صحافیوں کی درخواست اور کوشش کے باوجود اب تک کسی سے بات نہیں کی اور فقط تحریری پیغامات بھجوائے ہیں۔

پاکستان میں اب تک سات ایسے حملے ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری اس تنظیم کے ترجمان نے قبول کی ہے۔ ان حملوں میں سے دو حملے ایسے ہیں جن میں اس تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے تھے۔

پشاور میں سینیئر صحافی مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کے بارے میں کوئی واضح معلومات تو نہیں لیکن ان کی معلومات اور ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ تحریک طالبان پاکستان سے ہی جڑے لوگ ہیں اور اسی تنظیم کا دوسرا نام ہو سکتا ہے۔’طالبان جن حملوں کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے وہ اس تنظیم کے نام سے قبول کرا لیتے ہیں۔ اس خطے میں کسی دوسری تنظیم کے وجود کے آثار نظر نہیں آتے اور ان علاقوں میں جس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ طریقہ بھی ٹی ٹی پی سے ہی ملتا جلتا ہے۔‘

تحقیق کار اور صحافی عبدالسید کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے حملوں کی ذمہ داری سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کا کوئی ہمدرد گروپ ہے یا اس کا کوئی خفیہ منصوبہ ہے۔ تاہم  مستبقل قریب میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ تحریک جہاد پاکستان کی حقیقت کیا ہے کیونکہ اگریہ تحریک طالبان کی خفیہ تنظیم ہے تو یقیناً یہ تعلق زیادہ عرصہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا اور یہ اگر تحریک طالبان کے اندر سے ہی کسی بغاوت یا اس کا مدمقابل کوئی نیا گروپ ہے تو وہ بھی جلد واضح ہو جائے گا۔

Back to top button