تحریک لبیک پر پابندی میں قانونی مسائل سامنے آگئے

قانونی اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ایک سیاسی جماعت پر اس طرح پابندی عائد نہیں کی جا سکتی جیسے حکومت نے عائد کی ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق تحریک لبیک پر پابندی انسداد دہشتگردی کے قانون 1997 کے قواعد 11 بی کے تحت لگائی ہے جس کے لیے صرف کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ تاہم اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد شیخ رشید نے یہ اعلان کیا کہ حکومت تحریک لبیک کے مکمل خاتمے کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے جا رہی ہے۔ یعنی حکومت کو خود بھی یقین نہیں ہے کہ اس کی جانب سے پابندی عائد کرنے کا فیصلہ قانونی طور پر فول پروف ہے بھی یا نہیں۔ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار حامد میر کہتے ہیں کہ 2017 میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم، فیض آباد پر تحریک لبیک کی جانب سے دیے گئے دھرنے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فروری 2019 والے فیصلے پر عمل درآمد ہو جاتا تو شاید آج والے حالات نہ پیدا ہوتے اور حکومت کو عجلت میں اس جماعت پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ انھوں نے کہا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں کوئی ہوم ورک نہیں کیا اور محض وزیر داخلہ کے ذریعے پابندی لگانے کا اعلان کروا دیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر تحریک لبیک پر پابندی لگانے چکی ہے تو پھر اب بھی لاہور اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں اس کے کارکنوں کا احتجاج کیسے جاری ہے اور قانون ان کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ حامد میر کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے کارکن اب بھی سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں اور وہ ریاست اور حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں ٹوئٹر پر جاری ٹرینڈز میں سے ٹاپ ٹرینڈز تحریک لبیک کی حمایت اور جماعت کی پابندی کے فیصلے کے خلاف چل رہے ہیں جبکہ کچھ ٹرینڈز ٹی ایل پی مخالف بھی ہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے ایک حاضر سروس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کسی سیاسی جماعت پر مکمل پابندی کے لیے ضروری ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت اس جماعت کو تحلیل کیا جائے کیونکہ اسی صورت میں اس سیاسی جماعت کے ارکان پارلیمان کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا جا سکتا ہے، ورنہ سیاسی جماعت کا وجود برقرار رہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت نے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت پر انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت پابندی عائد کی ہو۔
تاہم سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کسی تنظیم پر تو فوری طور پر پابندی لگانے کا اختیار وفاق کے پاس ہے۔ لیکن کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں طریقہ کار الیکشن ایکٹ سنہ 2017 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت کے پاس کسی بھی جماعت کو کالعدم قرار دینے کا اختیار ضرور ہے لیکن آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے تحت ہی کسی جماعت کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے پارٹی امور چلانے کے لیے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرتی ہے اور اس کے ناقابل تردید شواہد بھی سامنے آ جاتے ہیں تو پھر الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 212 کے تحت یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھجوائے گا اور وفاقی حکومت 15 روز میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوائے گی۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ فریقین کو نوٹس جاری کرنے اور ان کا موقف سننے کے بعد ہی کی جماعت پر پابندی عائد کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے یا دہشت گردی پھیلانے کے الزام کے نتیجے میں پابندی عائد کر دیتی ہے تو پھر اس جماعت کے ٹکٹ سے منتخب ہونے والے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی نااہل قرار ہو جائیں گے۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ اگر متاثرہ فریق چاہے تو وہ حکومتی فیصلے کے خلاف عدالتوں میں بھی جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے اس وقت تین ارکان سندھ اسمبلی کے رکن ہیں۔ ان میں سے دو ارکان 2018 میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہو کر آئے ہیں جبکہ خواتین کی مخصوص نشتوں پر بھی ایک رکن ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی گئی ہے اور وہ سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت کو کالعدم قرار دیے جانے کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں گیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں قائم ایک بینچ نے دو سال تک اس معاملے کی سماعت کرنے کے بعد اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے فیض آباد دھرنے کے عدالتی فیصلے میں تحریک لبیک پاکستان کے بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہونے سے متعلق لکھا تھا کہ اس جماعت نے پارٹی فنڈنگ کے بارے میں الیکشن کمیشن کو کوئی معلومات فراہم نہیں کیں اور الیکشن کمیشن نے اس بارے میں بے بسی کا اظہار بھی کیا ہے۔اس عدالتی فیصلے میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا بھی ذکر ہے کہ وہ ان افراد میں شامل تھے جو تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کی حمایت کر رہے تھے۔اس فیصلے میں اس دھرنے کی حمایت کرنے والوں میں سابق فوجی آمر ضیا الحق کے صاحبزادے اور سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے علما ونگ کا بھی ذکر ہے کہ انھوں نے بھی ٹی ایل پی کے دھرنے کی حمایت کی۔ شیخ رشید اور حکمراں جماعت سمیت دیگر فریقین نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں بھی دائر کر رکھی ہیں جو دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئیں۔اس فیصلے میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کی قیادت اور اس کے مالی معاملات کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کا بھی ذکر ہے جبکہ آئی ایس آئی نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اس طرح کی معلومات اکھٹی کرنا ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔اس فیصلے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ سنہ 1997 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت ایجنسیوں کا کردار واضح ہے اور ان اداروں کو ایسے عناصر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو تشدد اور نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔
خفیہ ایجسنیوں کے بارے میں مزید لکھا گیا ہے کہ یہ ادارے ایسے عناصر کی حرکات و سکنات کی نگرانی کریں جو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف 2019 میں جو صدارتی ریفرنس دائر ہوا تھا اس کے بارے میں ان کے وکیل منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہونے کی اصل وجہ فیض آباد دھرنے سے متعلق ان کا لکھا گیا فیصلہ ہے۔ اب یہی بات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں اپنی اپیل کی سماعت کے دوران بھی کر دی ہے اور کہا ہے کہ انہیں بطور جج ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے۔