پارٹی پالیسی سے انحراف انتا سنگین جرم کہ تاحیات نااہلی ہو؟
عدالت عظمی نے آرٹیکل 63 کی تشریخ کیلئے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے ذریعے آئین کی تشریح کے دور رس نتائج ہوں گے جبکہ صدارتی ریفرنس مفروضے پر مبنی ہے۔ کیا پارٹی سے انحراف اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہو؟
سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے بدھ کوآرٹیکل63 کی تشریخ کیلئے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے صداتی ریفرنس واپس بھیجنے کا موقف اپناتے ہوئے کہاکہ ضروری نہیں کہ ہر دفعہ پارٹی پالیسی سے انحراف ضمیر فروشی ہو، صدر پورے وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے،وہ کسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریفرنس عدالت کو نہیں بھجوا سکتا۔
ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا صدر نے ریفرنس کے پیرا 19 میں سینیٹ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ارکان نے ووٹ بیچے لیکن حکومتی جماعت نے ان کے خاف کوئی کارروائی نہیں کی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ ’پیسوں کا لین دین ثابت کرنا لازمی ہوتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر ووٹوں کی خریدو فروخت کا ذکر آرٹیکل 63 اے میں نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آئین آرٹیکل 63 اے کے ذریعے اظہار رائے کا موقع دیتا ہے اور اس کی قیمت بھی ادا کرنا ہوگی کہ جو رکن بھی ضمیر کی آواز پر اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے گا اس کی سیٹ بھی خالی ہوگی۔ جس کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔ اس کی سزا تاحیات نااہلی نہیں ہو سکتی، اگر حکومتی ارکان ہسپتالوں پر لگنے والے 17 فیصد جی ایس ٹی کی مخالفت کریں اور کہیں کہ اس سے غریب کے لیے علاج مہنگا ہوگا اور منی بل میں مخالفت کریں تو آپ اس ضمیر فروشی نہیں کہہ سکتے۔
وکیل مخدوم علی خان نے جب اپنے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھائے کہ کیا صدر ہم سے اسمبلی کی کارروائی سے متعلق رائے طلب کر سکتے ہیں؟ کیا ریفرنس پر رائے کا اسمبلی کارروائی پر لازمی اطلاق ہوگا؟ کیا ریفرنس اسمبلی اور صدر کی ایڈوائس پر جمع کرایا گیا؟، جس پر مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہااس میں بیشتر سوال تو اٹارنی جنرل سے متعلق ہیں تاہم ریفرنس واپس بھیجنے کی استدعا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’عدالت صدارتی ریفرنس سننےکی قانونی طور پر پابند نہیں صرف احترام میں سنا جاتا ہے۔ ریفرنس میں سوال قانونی نہیں سیاسی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے آرٹیکل 63 اے میں درج نتائج سےبڑھ کر ریلیف ملے۔ ہرسوال کا جواب عدالت سے لینا مناسب نہیں ہوتا۔
بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 63 اے پارٹی سےانحراف کو غلط کہتا ہے سوال یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف کیا اتنا غلط ہےکہ تاحیات نااہلی ہو؟ جسٹس جمال خان نے کہا کہ ’63 اے کے مطابق پارٹی سربراہ انحراف کا ڈیکلریشن دیتا ہے۔ کہیں نہیں کہا گیا کہ بغیر سنے نااہلی ہوگی۔
ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا صدارتی ریفرنس اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے بعد دائر کیا گیا۔جس پر جسٹس جمال خان نے کہا یقینی بنائیں عدالتی کارروائی کی بنیاد پرکچھ ایسا ویسا نہ ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا حکومت عدالتی کارروائی کی بنیاد پر کچھ نہیں کر رہی۔
مسلم لیگ ن کے وکیل نے عائشہ گلالئی کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس منیب اخترنے کہا کہ ’عائشہ گلالئی کیس میں عدالت نے ہرمعاملے کو دیکھ کر فیصلہ دیا۔ جس میں پارٹی کی ہدایت ثابت نہیں ہو سکی تھی۔ پارٹی ووٹ ڈالنے سے روکے اور رکن ووٹ ڈال دے تو بات ختم ہو جاتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ ’اگر پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر بات ختم ہوتی تو شوکاز کیوں دیا جاتا۔ عدالت منحرف ہونے کو گھناونا جرم قرار دے تو بھی پارٹی سربراہ کی مرضی ہے کہ اس جرم پر ڈیکلریشن دے یا نہ دے۔‘
عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔