پاکستانی مین سٹریم میڈیا دو مخالف دھڑوں میں تقسیم
سابق وزیراعظم عمران خان کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے پاکستانی مین سٹریم میڈیا واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے، ماضی میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا نقطہ نظر آگے بڑھانے والا میڈیا کا دھڑا اب صرف عمران خان کا موقف لے کر چل رہا ہے جبکہ دوسرا دھڑا حکومتی موقف اپنائے ہوئے ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے چلائی گئی سوشل میڈیا مہم کو کائونٹر کر رہا ہے۔ سیاسی منظرنامے پر کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ہی اب عمران خان کا حامی میڈیا کا دھڑا ان کا اور بھی زیادہ حامی ہو گیا ہے اور ان کا مخاف میڈیا ان کا مزید مخالف ہو گیا ہے۔ مین سٹریم میڈیا سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر ٹی وی چینلز اور اخبارات مسلم لیگ نون، شہباز شریف کی اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب میڈیا کا ایک چھوٹا حصہ عمران خان کی حمایت کر رہا ہے جن میں اے آر وائے نمایاں ہے۔ ماضی میں اے آر وائے کو اسٹیبلشمنٹ کا حمایتی چینل سمجھا جاتا تھا لیکن عمران کے اقتدار سے جانے کے بعد سے اس چینل پر بھی عمران اور انکی تحریک انصاف کا فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہائی لائٹ کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر بھی عمران خان کے حمایتی اور مخالفین دست و گریبان نظر آتے ہیں، لیکن یہاں عمران کا پلڑا بھاری لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عمران خان نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہیں چنانچہ موبائل استعمال کرنے والے کروڑوں نوجوان سوشل میڈیا پر ان کا بیانیہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ چند دن پہلے عمران خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر انہی نوجوان صارفین کی مدد سے ایک ٹوئٹر سپیس کو ڈیجیٹل ‘جلسے‘ میں بدل دیا تھا اور یوں اس جماعت نے گھر بیٹھے ایک لاکھ 65 ہزار افراد کا ‘آن لائن جلسہ‘ منعقد کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی موسم تبدیل ہو تو پاکستانی میڈیا بھی اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا ہے اور چن چن کر سابقہ حکمرانوں سے بدلہ لینا شروع کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ عمران کے دور کو پاکستانی میڈیا کے لئے بدترین قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس دوران درجنوں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، اغوا کیا گیا اور گولیاں ماری گئیں۔ اس کے علاوہ حامد میر اور طلعت حسین سمیت کئی سینئر صحافیوں کو آف ایئر بھی کروا دیا گیا تھا۔ یہ لوگ اب مین سٹریم میڈیا پر واپس آ چکے ہیں اور اپنے پروگرام دوبارہ سے شروع کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں زیادہ تر میڈیا مالکان وہ لوگ ہیں جنہوں نے بہت سے دوسرے کاروبار بھی شروع کر رکھے ہیں لہٰذا وہ اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے اور حکومت سے مراعات کے حصول کی خاطر حکومتی خوشنودی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بہت سے میڈیا مالکان اشتہارات کے حصول کے لیے بھی سمجھوتا کرنے پر مجبور ہیں۔ تاہم جنگ گروپ اور ڈان گروپ اور ان کے ٹی وی چینلز ان چند اداروں میں سے ہیں جو کہ پروفیشنل اپروچ کے ساتھ چل رہےہیں۔ ان حالات میں سوشل میڈیا نے مین سٹریم میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ٹرینڈز کی سیاست اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
تجزیہ نگاروں کے بقول وہ صحافی اور دفاعی تجزیہ نگار جو اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر عمران خان حکومت کی حمایت کرتے تھے اب پالیسی بدلنے اور اسٹیبلشمنٹ کے ”نیوٹرل‘‘ ہو جانے کے بعد کنفیوژڈ ہیں کہ وہ عمران کی حمایت جاری رکھیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ کریں جس کے خلاف تحریک انصاف نے ایک بڑی سوشل میڈیا مہم شروع کر رکھی ہے۔ اسی لیے بھاڑے پر تجزیے پیش کرنے والے زیادہ تر دفاعی تجزیہ نگار آج کل ٹی وی چینلزپر آنے سے گریز کر رہے ہیں۔
نئی صورتحال میں موجودہ حکومت کو بھی یہ نقصان ہوا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم لوگوں کے خلاف حالیہ کریک ڈائون کے باوجود اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو نہیں رکوا سکی۔ پاکستان میں موجود لوگوں پر تو کریک ڈائون سے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے لیکن عمران خان کے حمایتی اوورسیز پاکستانیوں کو روکنا بظاہر ممکن نہیں۔ لیکن بات صرف موجودہ حکومت تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس وقت سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر تنقید کا سامنا ہے اور ریٹائرڈ فوجی حضرات بھی اس کام میں پیش پیش ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی محاذآرائی میں اعلیٰ صحافتی اقدار بری طرح پامال ہو رہی ہیں، ایڈیٹر کا عہدہ پہلے ہی سگریٹ اور مٹھائیاں بیچنے والے اناڑی اخباری مالکان کے پاس جا چکا ہے۔ لہٰذا حقائق تک رسائی حاصل کرنا، حقائق کو پرکھنا اور معروضیت پر مبنی ایک متوازن سٹوری تیار کرنا نہ اب میڈیا کی ضرورت ہے اور نہ ہی مالکان کی۔ خبر کی کوالٹی پر خبر کی رفتار کو ترجیح دی جا چکی ہے اور بغیر تصدیق کے بازی لے جانے کے چکر میں ”بریکنگ نیوز‘‘ چلانے پر توجہ بڑھ گئی ہے۔سیاسی کشیدگی کے ماحول میں عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جعلی خبریں بھی گھڑی جا رہی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے بھارت گئے تو شیوسینا کے احتجاجی کارکنوں نے ان کے میزبان ستیندر کلکرنی کہ منہ پر کالی سیاہی پھینک دی۔ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس تصویر کو لے کر کہانی گھڑی کہ سری لنکا کے چیف جسٹس کے انصاف نہ کرنے پر وہاں کے لوگوں نے ان کا منہ کالا کر دیا۔ اسی طرح پاکستانی فوج کے بعض ریٹائرڈ افسران کی ویڈیوز اور آوازوں میں جعل سازی کر کے سوشل میڈیا پوسٹس چلائی گئیں۔ کچھ عرصہ پہلے سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے انتقال کی جھوٹی خبر پر صدر عارف علوی نے تعزیتی ٹویٹ بھی کر دیا تھا بعد ازاں انہیں درست صورت حال معلوم ہونے پر یہ ٹویٹ واپس لینا پڑا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر میڈیا کو کہی سنی باتیں آگے پہنچا کر لاوڈ اسپیکر نہیں بن جانا چاہیے بلکہ حقائق کی چھانٹ پھٹک کے بعد ہی مستند اور معیاری خبریں پیش کرنا چاہیئں۔ ان کے بقول حالیہ دنوں میں میڈیا نے ایسی خبریں پیش کرنے کی بجائے بڑی حد تک مختلف رہنماؤں کی آراء کو ہی بیان کیا ہے۔ انکے مطابق ایک ہی واقعے کو دو مختلف ٹی وی چینل اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دیکھنے والا کنفیوز ہوکر رہ جاتا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ حقائق کی جانچ پرکھ نہ تو اب میڈیا مالکان کا تقاضا ہے اور نہ ہی اب صحافیوں کی ترجیح رہی ہے۔ سچ پوچھیں تو سچ بولنے اورخبروں کی صداقت پر اصرار کرنے والے صحافی اب تیزی سے تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پارٹیوں کے من پسند اور سرکاری و مالی مفادات حاصل کرنے والے صحافی سب کو پسند ہیں اور ان کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔ بہت سے چھوٹے ٹی وی چینلز تو رپورٹر کو فیلڈ میں ہی نہیں بھیجتے، وہ کسی بڑے ٹی وی چینل پر آنے والی خبر کو اٹھا کر بلا خوفِ تردید اور بلا تصدیق من و عن آگے براڈ کاسٹ کر دیتے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ سینئر صحافیوں کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایک نیشنل ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور میڈیا سمیت تمام ادارے قومی مفادات اور ترجیحات کا احترام کریں۔ انکا کہنا ہے کہ ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں، ایک صحافی کے بھی تعصبات ہوتے ہیں وہ تنہائی میں رہ کر کام نہیں کرتا۔ چنانچہ ایک ٹی وی چینل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا ہے دوسرے چینل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران دو تہائی اکثریت سے دوبارہ واپس آ رہا ہے۔ اس صورت حال نے صارفین کے جاننے کے حق کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کی بہتری کی ذمہ داری ناظرین پر بھی عائد ہوتی ہے۔