پاکستانی کمپنیوں نے نایاب دوا کلوروکین بنانا کیوں بند کردی؟

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کرونا وائرس کا علاج قرار دی جانے والی ملیریا کی دوائی کلوروکین کی پروڈکشن کا عمل پاکستان کی 38 ادویہ ساز کمپنیوں نے بند کر دیا ہے کیونکہ یہ دوا بنانے والا خام مال یا تو مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور اگر دستیاب ہے بھی تو اس کی فی کلو قیمت کئی ہزار گنا بڑھ چکی ہے۔ یاد رہے کہ پہلے ہائیڈراکسی کلوروکین 10 ڈالر فی کلو میں دستیاب تھی لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے اسے کرونا وائرس کے علاج کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دیے جانے کے بعد اب اس کی قیمت 250 ڈالر فی کلو تک پہنچ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی کمپنی اب اس کو بنانے کا رسک نہیں لے رہی۔
کلوروکین بنیادی طور پر ایک ملیریا مخالف دوا ہے جو بہت عرصے سے مچھروں کی بہتات رکھنے والے ممالک میں استعمال ہو رہی ہے۔ کلوروکین کی گولیوں میں بنیادی جزو ہائیڈراکسی کلوروکین ہوتا ہے جو ملیریا کے خلاف ایک موثر دوا ہے۔ پاکستان میں کلوروکین کی دوا بنانے کےلیے ہائیڈراکسی کلوروکین نامی سالٹ درآمد کیا جاتا ہے۔ چین، انڈیا اور جاپان دنیا کے وہ ممالک ہیں جو سب سے زیادہ ہائیڈراکسی کلوروکین برآمد کرتے ہیں۔
پاکستان میں ادویات ساز کمپنیوں کی تنظیم پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیر ناگرا کا کہنا ہے کہ ‘پاکستان میں یہ دوا بنانے کا۔لائسنس رکھنے والی 38 کمپنیوں نے اسکی پروڈکشن بند کر دی یے کیونکہ اس وقت کلوروکین دوا بنانے والا خام مال مارکیٹ دستیاب نہیں ہے۔ ویسے بھی پہلے ہائیڈراکسی کلوروکین 10 ڈالر فی کلو گرام میں دستیاب ہوتی تھی اور اب اس کی قیمت 250 ڈالر فی کلو گرام تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے کوئی بھی کمپنی اس کو بنانے کا رسک نہیں لے رہی۔’
ادویات کے ایک تاجر کا کہنا ہے کہ پچھلے دو ہفتے سے ملک میں کلوروکین نایاب ہو چکی ہے۔ جتنی بھی دوائی مارکیٹ میں دستیاب تھی وہ لوگوں نے خرید کر ذخیرہ کر لی ہے اور اب پیچھے سے سپلائی نہیں آ رہی۔’ کلوروکین ایک سستی دوا ہے، 100 گولیوں کا ڈبہ پونے تین سو روپے میں ملتا تھا لیکن اب کرونا کے بعد تو اب تو پانچ ہزار روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہ سب تب کے بعد سے ہے جب اس دوائی کو صدر ٹرمپ نے کرونا کے علاج کے طور پر تجویز کیا حالانکہ اس بات کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے کہ یہ دوا واقعی کرونا کے لیے پراثر ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سے پاکستان میں اس دوائی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے حتیٰ کہ ملیریا کے مریضوں کےلیے بھی دوا دستیاب نہیں ہے، جب کہ کمپنیوں کے پاس مزید دوائی بنانے کی گنجائش نہیں رہی۔ یہ دوائی ایسی تھی جس کا استعمال پاکستان میں بھی کئی برسوں سے کافی کم تھا اور اسکی قیمت پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے فکس کر رکھی تھی۔ اس حساب سے کمپنیوں کو کاروباری لحاظ سے یہ دوائی بنانا منافع بخش نہیں لگتا تھا اس لیے مارکیٹ میں اس کی مقدار کم تھی اور اس کا خام مال بھی کم ہی درآمد کیا جاتا تھا۔ تاہم کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اچانک یہ دوائی اتنی قیمتی ہو جائے گی،۔
دوسری طرف اس بحران سے نمٹنے کے لیے ادویات ساز کمپنیوں کے مطالبے پر حکومت نے 38 کی بجائے اب ملک بھر کی ادویہ ساز کمپنیوں کو کلوروکوین بنانے کی اجازت دے دی یے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی فارما سوٹیکل کی صنعت 9 ارب ڈالر سالانہ کی ہے اور کپڑے کی صنعت کے بعد سب سے زیادہ برآمدات اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ تاہم اس صنعت کا سب سے زیادہ انحصار خام مال کی درآمد پر ہے اور کلوروکوئین بھی برآمد شدہ خام مال سے ہی بنتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button