پاکستان آرمی ایکٹ میں کون سی اہم ترامیم تجویز کی جا رہی ہیں؟
باخبر ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ حکومت کے مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکج میں کچھ ترامیم پاکستان آرمی ایکٹ کے حوالے سے بھی ہیں جنہیں اب تک خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
اگرچہ حکومت ابھی تک مکمل مجوزہ آئینی مسودے کو خفیہ رکھا ہوا ہے لیکن ارکان پارلیمنٹ اور اس معاملے سے باخبر حکام کا خیال ہے کہ اس مسودے میں فوج کے ادارے سے متعلق کچھ اہم ترامیم بھی تجویز کی گئی ہیں جن پر مولانا فضل الرحمن نے اعتراض کیا ہے۔ ماضی میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مولانا ڈیزل کا خطاب پانے والے مولانا فضل الرحمن کا موقف ہے کہ وہ کسی بھی ایسی آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے جس سے کسی بھی آئینی ادارے کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافہ ہو۔ یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن وہی شخصیت ہیں جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے غیر ائینی اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں صدر بھی مان لیا تھا۔ مولانا نے مشرف کے غیر آئینی لیگل فریم ورک آرڈر کو پاس کروانے میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے فوجی جنتا کا ساتھ دیا تھا اور پھر اسی آئین شکن جرنیل کے اقتدار میں حصہ دار بھی بنے تھے۔
کیا گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ کا سورج غروب ہونے والاہے؟
حکومتی حلقوں نے کنفرم کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج میں سے کچھ ترامیم پر معترض ہیں اور اسی لیے ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ میں ایک مجوزہ ترمیم کا تعلق ملٹری جسٹس سسٹم سے ہے جس میں کسی فوجی، سابق فوجی یا سویلین کے خلاف عدالت کی جانب سے فوجی ٹرائل کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ٹرائل اور فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں کوئی اپیل نہیں کی جاسکے گی۔ مولانا فضل الرحمن کے خیال میں اس ترمیم کا بنیادی مقصد اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کا فوجی ٹرائل یقینی بنانا ہے لہذا وہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں تاکہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کا غیر اعلانیہ الائنس برقرار رہے اور ان کا ڈیزل ہاتھوں ہاتھ بکتا رہے۔ دوسری مجوزہ ترمیم جس کی مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے اس کا تعلق سول، ملٹری اور عدلیہ کے ارکان کی ریٹائرمنٹ سے متعلق ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سروس آف پاکستان رولز کے تحت کام کرنے والے تمام سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کی توسیع کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ عدلیہ، بیوروکریسی اور تینوں مسلح افواج کے تمام ارکان کی مدت ملازمت میں اضافے کی تجویز بھی موجود ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اتوار کو رات گئے خورشید شاہ کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی نے مجوزہ ائینی ترامیم کا مکمل مسودہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا تاہم اس کے کچھ حصے بلاول، مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں نے پڑھے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول دونوں کے پاس مجوزہ ائینی ترامیم کے دو دو مسودے موجود تھے لیکن بلاول کے پاس سب سے زیادہ اپ ڈیٹڈ ڈرافٹ تھا جس میں انہوں نے مختلف نکات پڑھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ائینی ترامیم کا حتمی ڈرافٹ تیار کرنے میں ایک سے دو روز کا وقت لگ سکتا ہے۔
یاد ریے کہ پاکستان کے 1973 کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔ ائین پاکستان کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہوں گے۔ اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔ جبکہ سینیٹ میں حکومت کو 5 ووٹوں کی کمی کا سامنا ہے۔ ان نمبرز کو پورا کرنے کے لیے حکمراں اتحاد جمعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے جن کے پاس قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینیٹ میں پانچ ارکان موجود ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی اس آئینی ترمیم کی حمایت کر دیتی ہے تو پھر آئینی ترامیم پاس ہو جائیں گی۔ تاہم مولانا فضل الرحمن نے اپنی حمایت کو مشروط کر دیا ہے اور اسی وجہ سے معاملہ لٹک گیا لگتا ہے۔