پرویز الٰہی نے پیکا قانون پر حکومت کی مخالفت کردی


ملک کی تمام بڑی صحافتی تنظیموں کی جانب سے پیکا کے میڈیا مخالف کالے قانون میں ڈریکونین حکومتی ترامیم مسترد کئے جانے کے بعد اب وزیراعظم عمران خان کے اہم ترین اتحادی پنجاب کے سپیکر چوہدری پرویز الہی نے بھی حکومتی ترامیم کے خلاف آواز بلند کر دی ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ نے وزیراعظم کو اپنے نا عاقبت اندیش مشیروں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مشیر غلط فیصلوں سے حکومت اور میڈیا کے درمیان خلیج وسیع کرنے میں مصروف ہیں جسکا خمیازہ وزیراعظم کو بھگتنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے پیکا کے کالے قانون کو مسترد کیے جانے کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پرویز الہی کو میڈیا کے نمائندوں اور حکومت کے مابین ثالثی کا اختیار دے دیا تھا۔ اس کے بعد صحافتی تنظیموں اور پرویزالٰہی کے مابین ایک ملاقات بھی ہوئی تھی جس میں سپیکر پنجاب اسمبلی نے میڈیا کے موقف کو درست قرار دیا۔ اب انہی خیالات۔کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کے نام اپنے ایک پیغام میں پرویز الہیٰ نے میڈیا مخالف حکومتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی کے طور پر کچھ اخبارات اور میڈیا ہاوسز کے اشتہارات بند کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار رائے جمہوریت کا حسن ہے اور مثبت تنقید تو حکومتوں کی اصلاح کرتی ہے۔ انہوں نے عمران خان کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے اپنے اراکین کو مخصوص چینلز پر نہ جانے اور انکا بائیکاٹ کرنے کی حکومتی ہدایت پر بھی تشویش ہے، اور وزیر اعظم اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
پرویز الٰہی نے کہا کہ میڈیا کے اشتہارات پر پاپندی بظاہر پیکا آرڈنیس پر تنقید کے بعد لگائی گئی ہے، حالانکہ سرکاری اشتہارات عوامی ٹیکس سے ادا کیے جاتے ہیں جن کو مخصوص اخبارات اور چینلز کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
مسلم لیگ (ق) کے سیننئر رہنما کا کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے میڈیا ہاوسز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، وزیر اعظم نے مجھے میڈیا ہاؤسز اور حکومت کے درمیان پیکا آرڈنیس کے حوالے سے معاملات سلجھانے کا ٹاسک دیا ہے لیکن دوسری طرف معاملات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ متنازع پیکا ترمیمی آرڈیننس کو ملک بھر میں اپوزیشن جماعتوں، صحافتی تنظیموں اور وکلا برادری کی جانب سے مسترد کی جانے کے بعد سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اس تنقید کے بعد چند روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آرڈیننس واپس لینے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو مکمل مینڈیٹ دیا ہے، جس طرح وہ کہیں گے اس طرح کر لیں گے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی، پرویز الہٰی سے مذاکرت کر کے ایک ٹائم فریم کے اندر اپنی سفارشات کے ساتھ مسودہ تیار کرلے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
تاہم میڈیا کی ورکرز تنظیموں کا یہ موقف ہے کہ حکومت کے ساتھ پیکا کے ترمیمی آرڈینینس پر کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرنی چاہئیں چونکہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ عدالت اس حکومتی فیصلے کو معطل کر دے گی۔ یاد رہے کہ 20 فروری 2023 کو صدر عارف علوی نے پیکا ترمیمی آرڈیننس میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔
پیکا ترمیمی آرڈیننس کے سیکشن 20 میں ترمیم کے بعد ہتک عزت کو ایک سول قانون سے فوجداری قانون میں تبدیل کر دیا گیا جس کی سزا پانچ سال قید مقرر کردی گئی۔ آرڈیننس کے مطابق ہتک عزت کے جرم میں گرفتار ہونے والے شخص کو ضمانت نہیں ملے گی اور ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔
پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی ویژن پر کسی بھی ‘فرد’ کے بارے میں فیک نیوز یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔ جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔ یہ فیصلہ بھی حکومت ہی کرے گی کہ کونسی نیوز فیک ہے؟ ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی،ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔ پیکا ترمیمی آرڈینینس کے مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف بھی ایکشن ہو سکتا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

Back to top button