پرویز الٰہی کا وزیر اعلیٰ بننا اتنا آسان کیوں نہیں ہے؟


وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلٰی بنانے کے اعلان کے باوجود قاف لیگ میں پڑنے والی دراڑ اور پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کی جانب سے انکی مخالفت کے باعث پرویز الٰہی کا وزارت اعلٰی حاصل کرنا کوئی اتنا آسان ٹاسک نہیں ہے۔ دوسری جانب اگر حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں مرکز میں عمران خان کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو پرویز الہی نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے، خصوصا جب بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ بنی گالہ میں وزیراعظم اور پرویز الٰہی کی ملاقات کے دوران وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا گیا جس کے بعد عمران خان نے پرویز الہی کو جپھی ڈال کر وزارت اعلیٰ کی مبارکباد دی۔ تاہم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ بہت دیر سے کیا گیا جس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور اب پرویز الٰہی کے لیے بھی وزارت اعلیٰ کا الیکشن جیتنا اتنا آسان عمل نہیں ہوگا۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ طارق بشیر چیمہ کے استعفے سے ثابت ہو گیا ہے کہ قاف لیگ میں عمران خان کا ساتھ دینے پر تقسیم پیدا ہو گئی ہے، دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان گروپس کسی بھی صورت پرویز الہی کو پنجاب کا وزیر اعلی بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہیں گے اور ان کے دھڑوں سے تعلق رکھنے والے ممبران پنجاب اسمبلی انکی مخالفت کریں گے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے وزارت اعلیٰ کی آفر قبول کرنے کے باوجود بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان مرکز میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے، عمران خان کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلی پرویز الہی کے حوالے کرنے کا بنیادی مقصد مرکز میں تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا ہے، تاہم اگر ایسا نہ ہو پایا اور عمران کی چھٹی ہوگئی تو پرویز الہی نہ گھر کے رہیں گے اور نہ گھاٹ کے اور اسپیکر شپ سے بھی فارغ ہو جائیں گے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی پرویز الٰہی کی جانب سی وزارت اعلیٰ کی آفر قبول کر کے اپوزیشن کو دھوکا دینا ایک بہت بڑا سیٹ بیک ہے۔ یاد رہے کہ 28 مارچ کے روز وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور قاف لیگ نے مشترکہ طور پر داخل کی تھی جس کے بعد اخلاقی طور پر بھی پرویزالٰہی کا یوں اپوزیشن کو دھوکا دے جانا مناسب نہیں۔
حکومت کی جانب سے پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب نامزد کرنے کے اعلان پر ابھی تک اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں آیا۔ تاہم طارق بشیر چیمہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے چوہدری شجاعت حسین سے اجازت لینے کے بعد وزارت سے استعفیٰ دیا ہے کیونکہ میرے خیال میں کپتان حکومت نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے اور عوام کو مشکلات کے بھنور میں پھنسا دیا ہے۔ طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ میں نے اپنی ضمیر کی آواز پر اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے، چاہے مجھ پر جو بھی الزام لگتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا فیصلہ حتمی ہے اور میں ایک ہزار فیصد اپنا ووٹ عمران خان کے خلاف ڈالوں گا۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ پرویز الہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے یا اپوزیشن جماعتیں اپنا وزیر اعلی لانے میں کامیاب ہوں گی۔ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ باپ کے چار ممبران قومی اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن کی حمایت کے اعلان کے بعد ان کے حامی اراکین کی تعداد 168 ہو چکی ہے اور انہیں عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کے لیے صرف چار ووٹوں کی ضرورت ہے جو کہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کے خاندانوں میں دراڑ پڑ چکی ہے اور ہوسکتا ہے کہ طارق بشیر چیمہ کے علاوہ قاف لیگ کے پانچ ممبران اسمبلی میں سے 2 مزید اراکین بھی عمران خان کے خلاف ووٹ ڈال دیں۔ یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنانے کی حتمی پیشکش کا علم ہونے کے بعد ہی وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کی کرسی پرویز الہی کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ گجرات کے چوہدریوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا معاہدہ کر لیا تھا جس کے عوض انہیں پنجاب کی وزارت اعلی دینے کا معاہدہ بھی طے پا چکا تھا لہٰذا پرویزالٰہی کی جانب سے عمران خان سے وزارت اعلی قبول کر لینا ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔
یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے بعد اب انکے وسیم اکرم پلس وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروادی تھی جس کے بعد عمران خان نے پرویز الہی کو وزارت اعلی سونپنے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کے 183 ارکان اسمبلی موجود ہیں، جبکہ اتحادی ملا کر اسمبلی میں اسکے کل 198 ارکان ہیں۔ پنجاب میں حکومتی اتحادیوں میں ق لیگ کے 10، چار آزاد ارکان اور راہِ حق پارٹی کا ایک رکنِ اسمبلی شامل ہے۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس 173 ارکانِ موجود اسمبلی ہیں۔ ان میں ن لیگ کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 اور ایک آزاد رکن ہے۔ کسی بھی پارٹی کو پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے 186 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پرویزالٰہی پنجاب کی وزارت اعلی حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے یا عمران خان کی مرکز میں چھٹی ہونے کی صورت میں دونوں جانب سے فارغ ہوجائیں گے۔

Back to top button