پنجاب: ضمنی الیکشن کا میدان آج سجے گا، تیاریاں مکمل

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن کا میدان آج 17 جولائی کوسجنے جار رہا ہے، جس کیلئے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اورپولنگ کا سامان پہنچادیا گیاہے، پریذائیڈنگ افسروں کو مجسٹریٹ کے اختیارات تفویض کر دیئے گئے جبکہ پاک فوج کے جوان حساس پولنگ اسٹیشنز پر ڈیوٹی انجام دیں گے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحادپاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو پی ٹی آئی پنجاب گروپ نے مائنس بزدار کا نعرہ بلند کر دیا، اس دوران عمران خان نے صوبے کے محاذ سے نمٹنے کے لیے عثمان بزدار سے استعفیٰ لیا اور پرویز الٰہی کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا۔

مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو امیدوار نامزد کیے جانے کے بعد تحریک انصاف کے امیدواروں نے پارٹی سےبغاوت کر دی اور علی الاعلان پرویز الٰہی کے بجائے مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کا اعلان کیا، 16 اپریل کو جہانگیر ترین ، علیم خان اور اسد کھوکھر گروپ کی مدد سے لیگی امیدوارحمزہ شہباز وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں کامیاب ہوگئے۔

اس کے بعد تحریک انصاف حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے اپنے منحرف اراکین کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ پہنچ گئی،جس پر عدالت عظمیٰ کی طرف سے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیے جانے کا فیصلہ دیا گیا ۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا تو تحریک انصاف کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی تاحیات نااہلی سے بچ گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔

پنجاب اسمبلی کے منحرف قانون سازوں میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گِل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم، فیصل حیات شامل تھے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ان اراکین کو ڈی سیٹ کیے جانے کے بعد تحریک انصاف نے 5 مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تاہم ای سی پی نے ضمنی انتخابات کے نتائج جاری ہونے کے بعد نوٹیفکیشن جاری کیے جانے کا فیصلہ کیا تاہم اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی اراکین لاہور ہائیکورٹ چلے گئے جہاں عدالت عالیہ نے فیصلہ میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ برقرار رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ کیلئے 2 دن بعد دوبارہ ووٹنگ کاحکم صادر کر دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف چوہدری پرویز الٰہی اور پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا،جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے رن آف الیکشن کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے وسیع تر بنچ کے فیصلہ کیخلاف پی ٹی آئی کی دائر کردہ آئینی درخواست پر 22 جولائی کو وزیراعلیٰ کا دوبارہ انتخاب کرانے کے احکام صادر کر دیئے ہیں اور حمزہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب کام جاری رکھنے کا حکم بھی دیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں آج 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔

اس صورتحال میں پنجاب اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی نمبر گیم بھی دلچسپ ہوچکی ہے، پنجاب اسمبلی کا ایوان371 ارکان پر مشتمل ہے، حکومتی ارکان کی تعداد 176 ہے، جس میں مسلم لیگ ن کے 164، پیپلز پارٹی کے 7 اور چار آزاد امیدوار شامل ہیں۔ ن لیگ کے ایک رکن منحرف ہیں، خانیوال سے رکن صوبائی اسمبلی محمد فیصل نیازی نے استعفیٰ دیا جو منظور کر لیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان سے ملاقات کی اور حمایت کا اعلان کر دیا۔

الیکشن کمیشن نے خواتین نشستوں پر بتول زین، سائرہ رضا، فوزیہ عباس جبکہ اقلیتی نشستوں پر حبکوک رفیق اور سیموئیل یعقوب کے تقرر کے نوٹیفکیشن جاری کئے۔

اس صورتحال کے بعد پنجاب میں نمبر گیم کی صورتحال دلچسپ ہو گئی ہے، پنجاب اسمبلی کا ایوان371 ارکان پر مشتمل ہے، حکومتی ارکان کی تعداد 176 ہے، جس میں مسلم لیگ ن کے 164، پیپلز پارٹی کے 7 اور چار آزاد امیدوار شامل ہیں۔ ن لیگ کے ایک رکن منحرف ہیں، خانیوال سے رکن صوبائی اسمبلی محمد فیصل نیازی نے استعفیٰ دیا جو منظور کر لیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان سے ملاقات کی اور حمایت کا اعلان کر دیا۔اس طرح تحریک انصاف کو پانچ مخصوص نشستوں ملنے کے بعد تعداد 163 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ ق 10 کے رکن کے بعد یہ تعداد 173 ہو گئی ہے۔

موجودہ صورتحال میں آزاد امیدواروں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں آزاد امیدوار پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے ساتھ تھے، مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعد تمام آزاد امیدوار حمزہ شہباز کے ساتھ ہو گئے ہیں، آزاد امیدواروں میں سے سیّدہ جگنو محسن مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا اعلان کر چکی ہیں، دیگر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے چودھری بلال اصغر ، ملتان سے قاسم عباس خان، لیہ سے ملک احمد علی اولکھ، راولپنڈی سے چودھری نثار علی خان شامل ہیں، راہ حق پارٹی کے محمد معاویہ کا بھی ووٹ اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے خود کو ابھی اس صورتحال سے الگ رکھا ہوا ہے۔

آج ہونیوالے ضمنی الیکشن میں 20 میں سے پی ٹی آئی 13نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو معمولی برتری سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور آزاد اراکین کی تعدد چار ہے جو حکومت کے ساتھ ہیں۔ ان کو توڑنے کے لیے بھی زور لگانے کا جواز مل سکتا ہے۔ اس بات کا اندازہ مسلم لیگ ن کو بھی بخوبی ہے اسی لیے نہ صرف ن لیگ بلکہ حکمران اتحاد کی جماعت پیپلزپارٹی بھی ن لیگی امیدواروں کی بھر پور حمایت کر رہی ہے۔

ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم کیلئے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جلسوں سے خطاب کرتے رہے جبکہ دوسری طرف ن لیگی اور پی ٹی آئی رہنما میدان میں اپنے امیدواروں کی کمپین کرنے میں مصروف رہے، امیدواروں کو کامیاب کرانے کی سر توڑ کوشش میں مکمل کمپین کی گئی، اس دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے 4 وزراء مستعفی ہو کر الیکشن کمپین کرتے رہے، ان وزراء میں ایاز صادق، خواجہ سلمان رفیق، ملک احمد خان ، سردار اویس لغاری شامل تھے۔

ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی حصہ لے رہی ہیں ، تاہم پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا سہرا کس کے سر سجےگا اس کا فیصلہ آج ہونیوالے ضمنی الیکشن کریں گے۔

Back to top button