وزیراعلیٰ مریم اور گورنر پنجاب کے مابین اختلافات میں مزید اضافہ

ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں مرکز میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آتی دکھائی دیتی ہیں وہیں دوسری جانب پنجاب میں دونوں اتحادی جماعتوں کے مابین اختلافات کسی صورت تھمتے نظر نہیں آتے۔ ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب کے آبائی ضلع اٹک میں پولیس و ضلعی من پسند افسران کی تعیناتی سے پنجاب حکومت کا انکار، دونوں آئینی عہدوں کے مابین تنازع کی اصل وجہ ہے، گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان اپنے ضلع میں اپنی مرضی کے سرکاری افسران کی تعیناتی چاہتے ہیں تاہم پنجاب حکومت اس خواہش کو پورا کرنے سے انکاری ہے جس کے وجہ سے دونوں اطراف سے لفظی گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔

پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں میں پیپلز پارٹی کو من چاہا حصہ ملنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ اب دونوں جماعتیں بغیر اختلافی آوازوں کے مل کر آگے بڑھتی رہیں گی تاہم مختلف امور بارے گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات اور لفظی گولہ باری نے پنجاب کی حد تک دونوں جماعتوں میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔

خیال رہے کہ عام انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جب پیپلز پارٹی نے ملکر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تو جہاں پنجاب کی کمان مریم نواز کی صورت میں نون لیگ کو ملی وہیں ایک سیاسی بندوبست کے تحت صوبے کی گورنر شپ پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔اٹک سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما سردار سلیم حیدر خان پنجاب کے گورنر بنائے گئے۔ بظاہر تو یہ بندوبست دونوں سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی شراکت اقتدار کو متوازن رکھنے کے لیے بنایا گیا اور نون لیگ نے پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا تھا، لیکن گزشتہ کچھ وقت سے گورنر پنجاب ن لیگ کی حکومت سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی طرف سے پہلا محاذ اس وقت کھولا گیا جب پنجاب حکومت نے صوبے کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز لگانے کے لیے سمری بھیجی تو انہوں نے یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ فہرستیں میرٹ پر تیار نہیں کی گئی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے نئی آئینی ترمیم کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی جج کو ایکسٹینشن دینے سے عدلیہ متاثر ہو گی۔

ن لیگ نے پہلے پہل اس تنقید کو وائس چانسلرز کی تعیناتی میں ’حصہ داری‘ سے تعبیر کیا کہ گورنر اصل میں اپنی مرضی سے تقرریاں کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم گورنر نے اس الزام کو سختی سے رد کیا کہ وہ کسی مخصوص شخص کی بطور وائس چانسلر تقرری کے خواہاں نہیں بلکہ وہ صرف میرت کی بالادستی چاہتے ہیں۔

ابھی اس حوالے سے دونوں اطراف سے لفظی گولہ باری جاری تھی کہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے مریم نواز کی حکومت کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنا ڈالا کہ حکومت سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ کیوں کر رہی ہے، یہ تعلیم کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ جس پر پنجاب حکومت نے گورنر پنجاب کو گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر ڈرائی فروٹ کھانے اور چائے کی چسکیوں سے لطف اندوز ہونے کا مشورہ دے ڈالا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا لڑکی سے زیادتی کا پروپیگنڈا کرنے والوں کےخلاف کارروائی کا حکم

خیال رہے کہ گورنر پنجاب کی جانب سے سرکاری سکولوں بارے بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک ہی ہفتے میں بلاول بھٹو نواز شریف سے دو ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔ تو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے گورنر ن لیگ کی پنجاب کی حکومت سے نالاں کیوں ہیں؟

اس سوال کی کھوج کے لیے جب گورنر ہاؤس کے ہی ایک اعلیٰ افسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بنیادی مسئلہ گورنر صاحب کے اپنے اضلاع میں افسران کی تقرری کا ہے۔ ایک تو افسران ان کی مرضی کے نہیں لگے اور کچھ افسران کو وہ تبدیل کروانا چاہتے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے انکار کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان بیانات کا کوئی سیاسی پس منظر ہو تو اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘

اس صورت حال پر پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا گیا تو پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر علی قاسم گیلانی نے بتایا کہ ’اگر آپ کہیں کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں حکومتی معاملات سے خوش نہیں ہے۔ جن چیزوں کا ہم سے تحریری وعدہ کیا گیا تھا وہ پوری نہیں ہوئی ہیں۔ ہماری ایک کمیٹی بھی بنی ہوئی ہے جس میں دونوں جماعتوں کے رہنما ہیں، لیکن وہاں بھی بہت سست روی سے معاملات چل رہے ہیں۔ لیکن گورنر صاحب کے حالیہ بیانات اس کمیٹی کی سست روی کی وجہ سے نہیں ہیں۔ وہ جب بھی کرتے ہیں جائز تنقید ہی کرتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔‘

علی قاسم گیلانی سے جب پوچھا گیا کہ کیا گورنر صاحب اپنے ضلعے میں افسران کی تقرریوں کے باعث حکومت سے ناراض ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل، یہ وجہ درست اور یہ جائز بات ہے۔ ایک گورنر اگر اپنے ضلعے میں ایک ایس ایچ او تبدیل نہ کروا سکے توغصہ تو آئے گا۔ گورنر ایک سیاست دان بھی ہیں اور انہوں نے مستقبل میں بھی اپنے ضلعے کی سیاست کرنی ہے۔ ان کے جائز مطالبات مانے جانے چاہییں۔‘

دوسری جانب وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہمیں تو حیرانی ہے کہ گورنر صاحب کو ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ ان کا کام کیا ہے۔ حکومت کیسے چلنی ہے، یہ کام آئین نے ان کے ذمے نہیں لگایا۔ انہیں کبھی ہمارے سکولوں سے مسئلہ ہو جاتا ہے، کبھی یونیورسٹیوں سے۔ سندھ میں جہاں ان کی جماعت کی 16 برس سے حکومت ہے، وہاں سکولوں میں گدھے باندھے جاتے ہیں۔ شرح تعلیم کئی جگہوں پر صفر ہے۔ تو ہمیں وہ نہ بتائیں کہ ہم نے صوبہ کیسے چلانا ہے۔‘

انہوں نے تبادلوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے بلیک میل کر کے کام نہیں لیے جاتے۔ مریم نواز کی حکومت میں صرف میرٹ چلتا ہے۔ یہ عثمان بزدار کی یا فرح گوگی کی حکومت نہیں کہ تبادلوں پر پیسہ بنایا جائے۔ اگر کسی کو میرٹ سے مسئلہ ہے تو ہم اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔‘

Back to top button