نوابزادہ نصراللہ خان اپنی وضع کے آخری سیاستدان کیوں تھے؟


پاکستان میں جب بھی شخصی آزادیوں، جمہوری جدوجہد اور سیاسی اتحادوں کا تذکرہ ہو یا انکی ضرورت کا احساس ہو تو نوابزادہ نصراللہ خان کی یاد لازمی آتی ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے جمہوری ادوار اور فوجی آمریت کے زمانوں میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنائے اور جس طرح ان سے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کئے، اُنکی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نوابزادہ صاحب کو سیاسی اتحاد بنانے کا جنون تھا۔ اِسی لئے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ نوابزادہ صاحب پہلے آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں، سیاسی اتحاد بناتے ہیں اور تحریکیں چلاتے ہیں اور جب آمریت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور جمہوری حکومت قائم ہو جاتی ہے تو پھر یہی عمل اسکے خلاف شروع کردیتے ہیں۔ تاہم حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ نواب صاحب کا جمہوری حکومتوں سے تب ہی پالیسی اختلاف ہوتا تھا جب وہ آمرانہ ہتھکنڈے اپنانا شروع کر دیتی تھیں۔
نوابزادہ خود کبھی کسی مقبول جماعت کے رہنما نہیں رہے اور نہ ہی اُنہوں نے کبھی کسی سیاسی جماعت کی قیادت کی لیکن اُن کی سربراہی میں جو سیاسی اتحاد بنے، اُن میں ملک کے قدآور ترین سیاستدان شامل رہے۔ 1962میں اُن کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کے حق میں اپوزیشن کا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس وجود میں آیا۔ ایوب آمریت کے خلاف اُن کی مسلسل جدوجہد نے ہی ایوب خان کو گول میز کانفرنس کے انعقاد پر مجبور کیا، نواب صاحب اُس اتحاد کے کنوینر تھے۔ 1970میں نواب صاحب نے پیر پگاڑا کی سربراہی میں تمام اپوزیشن کو یکجا کر لیا اور 1977 کے انتخابات سے قبل 9 جماعتوں کا قومی اتحاد بنا کر بھٹو صاحب کی مقبول شخصیت اور مستحکم حکومت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔ پھر بحالی جمہوریت کے لئے ایم آرڈی کی بنیاد رکھی اور جنرل ضیاءالحق کو 1985 میں انتخابات کرانے پر مجبور کیا۔ 1988کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے سے ملک میں جمہوریت آگئی لیکن نوابزادہ صاحب نے اِس مرتبہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے اپوزیشن کو اکٹھا کیا اور صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کو رخصت کردیا۔ 1990میں نواز شریف اقتدار میں آئے تو نوابزادہ صاحب ایک مرتبہ پھر اُن کی حکومت کے خلاف سرگرم ہو گئے اور پی پی کے ساتھ مل کر آل پارٹیز کانفرنس کی بنیاد رکھ دی اور نواز شریف کی رخصتی کے بعد بے نظیر دوسری مرتبہ اقتدار میں آئیں تو اُس مرتبہ اُنہوں نے نوابزادہ صاحب کو ایک ’متبادل مصروفیت‘ کے لئے تمام مراعات اور اختیارات کے ساتھ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت رخصت ہوئی تو انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے لیکن اِس مرتبہ بھی وہ نوابزادہ صاحب کے سیاسی اتحاد کا نشانہ بنے۔
1999 میں جب مشرف نے نواز شریف کے ہاتھوں بطور آرمی چیف برطرف ہونے کے بعد بغاوت کر کے فوجی حکمران کے طور پر اقتدار سنبھالا تو نوابزادہ صاحب نے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یعنی اے آر ڈی کے نام سے بحالی جمہوریت کے لیے اتحاد بنا لیا۔ نوابزادہ اے آر ڈی کے چیئرمین بن گئے اور انہوں نے بیک وقت دو عہدے اپنے پاس رکھنے پر جنرل مشرف کی زبردست مخالفت کی۔ مشرف نے نوابزادہ نصراللہ کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن نوابزادہ نے ان کی پیشکش مسترد کردی اور یہ کہا کہ وہ اسی صورت مذاکرات کر سکتے ہیں اگرجنرل مشرف وردی اتار دیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام عمر جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے نوابزادہ نصراللہ خان کا انتقال 26 ستمبر 2003 کو ایک آمر جنرل مشرف کے دور میں ہوا۔
بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ اُن کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا اور اسلام آباد ہسپتال کے جس کمرے میں وہ زیرِ علاج تھے وہاں اُن کی زندگی کے آخری سیاسی اتحاد کے رسمی اور غیر رسمی اجلاس جاری تھے۔ڈاکٹروں کی ہدایت اور اہلِ خانہ کی مرضی کے خلاف وہ یہ اجلاس کروا رہے تھے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی زندگی پاکستان اور جمہوریت سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ اُن کی موت اپوزیشن کے لیے ایک دھچکا اور مشرف حکومت کے لیے ریلیف کا پیغام تھی۔ نواب زادہ نصراللہ خان کو اُن کے والد گرامی نواب امان اللہ خان کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا تو اُن کی میت کے ساتھ پاکستان کی سیاست، جمہوریت، جمہوری جدوجہد اور سیاسی اتحادوں کی ایک تاریخ بھی تہہ خاک ہو گئی۔ وہ سیاست میں شرافت اور وضعداری کا اعلیٰ نمونہ اور پاکستان میں خلافتِ عثمانیہ کی آخری یادگار تھے۔
نوابزادہ کی کالے پھندنے والی سرخ ٹوپی لاکھوں کے مجمع میں بھی انہیں منفرد اور ممتاز بنا دیتی تھی۔ یہ ٹوپی ترکوں اور خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ اُن کے دلی اور دائمی تعلق کا اظہار تھی۔سلیقے اور اہتمام سے سلی ہوئی اُن کی اچکن اور ہر چیز کی وضعدار اور روایت پسند اشرافیہ کی نشانی تھی۔ جس کے نیچے کلف لگا شلوار کرتا پنجاب کے زمینداروں کی یاد دلاتا تھا۔ سخت گرمی میں جب اچکن پہننا ممکن نہ ہوتا وہ جنوبی پنجاب کا مخصوص کنٹھی دار اور پف شولڈر والا سفید کُرتا استعمال کرتے۔ انہیں رنگین شلوار قمیص کے ساتھ شاید کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو۔ اُن کا مخصوص حقہ گھر اور دفتر کے علاوہ گاڑی اور بہت سی تقریبات میں بھی اُن کے ساتھ ہوتا۔ نوابزادہ نصراللہ بلا کے مقرر تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور عوامی جلسوں میں سامعین ان کی زبان سے اشعار سن کر بہت محظوظ ہوتے تھے۔ ان کا حافظہ بھی زبردست تھا۔ لاہور میں نکلسن روڈ پر انہوں نے ایک رہائش گاہ کرائے پر لے رکھی تھی جہاں سیاسی اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ وہ یہاں اپنے دوستوں اور صحافیوں کے ساتھ بھی گپ شپ کیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے تمام عمر جمہوریت کیلئے جدوجہد کی۔ ان کا حقہ اور ٹوپی بھی بڑے مشہور تھے۔ یہ دونوں اشیاء ان کی شخصیت کا لازمی جزو تھے۔ ان کا تعلق سیاستدانوں کے اس قبیلے سے تھا جس کا کرپشن سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ ایک بے داغ شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے جتنی بھرپور زندگی گزاری اور اپنے آپ کو جس طرح جمہوریت کیلئے وقف کیا اور آمروں کیخلاف جس پامردی سے لڑتے رہے اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔
نوابزادہ نصراللہ خان صرف ایک شخص اور فرد نہیں تھے بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک عہد، ایک ادارہ ، ایک دبستان اور ایک مکمل تہذیبی دور تھے۔ بازارِ سیاست کی چہل پہل کل بھی برقرار تھی، آج بھی برقرار ہے اور آئندہ بھی برقرار رہے گی۔ اس کے باوجود اس بازار کے سیاحوں کو برسوں اور عشروں تک رہ رہ کر نوابزادہ کی یاد آتی رہے گی۔ کسی نے سچ ہی تو کہا تھا کہ نواب صاحب اپنی وضع کے آخری سیاستدان تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button