چوہدری سرور اپنے نئے سیاسی ٹھکانے کی تلاش میں سرگرداں
مسلم لیگ ق کے چیف آرگنائزر اور سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے اپنے نئے سیاسی ٹھکانے کی تلاش شروع کر دی ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر چودھری سرور کے پارٹی بدلنے کی خبریں زیر گردش ہیں۔
خیال رہے کہ ماضی میں چوہدری سرور جب لندن سے پاکستان آئے تھے تو ن لیگ نے انہیں پنجاب کا گورنر بنا دیا تھا تاہم انہوں نے جلد ہی مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ عوامی فلاح و بہود کے کام کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتی جس کے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف جوائن کر لی۔جیسے ہی پی ٹی آئی پر برا وقت آیا تو چوہدری سرور نے تحریک انصاف سے بھی رائیں جدا کر لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سب کچھ آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں چوہدری سرور نے چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی اور مسلم لیگ ق جوائن کر لی جس کے بعد انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر بنایا گیا۔ چیف آرگنائزر بنے کے بعد چوہدری سرور نے کوشش کی پی ٹی آئی کے نامور لوگوں کو ق لیگ میں لایا جائے مگر انہیں کامیابی گھر سے ہی نہ ملی۔
چوہدری سرور کے قریبی ذرائع کے مطابق ق لیگ کا اپنا کوئی ووٹ بنک نہیں ہے، چوہدری شجاعت حسین بزرگ ہوگئے ہیں۔ چوہدری شافع حسین سیاسی طور زیادہ متحرک نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ بھی گھر سے پارٹی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ چیرمین، کونسلرز کو پارٹی میں شامل کروا کے تو الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ چوہدری سرور کافی پریشان تھے۔ وہ جس کو بھی ملتے تھے، یہی کہتے تھے کہ بڑے رہنما ق لیگ میں شامل کروائیں، تب ہی کوئی بات بن سکتی ہے لیکن جو ’لوگ‘ پارٹی میں رہنماؤں کو شامل کرواتے ہیں وہ اہم رہنماؤں کو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل کروا رہے ہیں۔یہ چوہدری سرور کے لیے ایک مایوسی کی بات تھی جبکہ چوہدری شافع ،چوہدری سالک حسین کی عوامی سیاست میں عدم دلچسپی سے بھی چوہدری سرور کافی نالاں ہیں۔
واضح رہے کہ چوہدری سرور کی تحریک انصاف میں واپسی کی باتیں اس وقت ہونا شروع ہوئیں جب ان کے سگے بھائی چوہدری رمضان کا انتقال ہوا۔چوہدری رمضان ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تحریک انصاف کے سرگرم رہنما اور ٹکٹ ہولڈر بھی رہے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے جس کے بعد چوہدری سرور اپنی گھر کی سیٹ کو اپنے پاس رکھنے کے لیے سرگرم ہوئے، انہوں نے پی ٹی آئی کے کئی لوگوں سے رابطے بھی کیے مگر کسی نے بھی ان کی واپسی پر کوئی ٹھیک جواب نہیں دیا۔
چوہدری سرور کے حوالے سے پارٹی چھوڑنے کی خبریں سامنے آئیں تو مسلم لیگ ق کی طرف سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری سرور کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔چوہدری شجاعت حسین نے چوہدری سرور کو اس وقت کوئی بھی سیاسی فیصلہ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ جواب میں چوہدری سرور نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی فیصلہ آپ کی مشاورت کے بغیر نہیں ہو گا، جلد پاکستان آکر چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کروں گا۔
ن لیگی ذرائع کے مطابق 2013 میں جب چوہدری سرور کو گورنر بنایا گیا تو ن لیگ نے اپنے کئی اہم رہنماوں کو ناراض کیا۔ پارٹی کے اندر اس پر بحث بھی ہوئی لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے انہیں گورنر پنجاب بنا دیا۔بعدازاں جب چوہدری سرور نے مسلم لیگ ن کو داغ مفارقت دیا تو پارٹی کے لوگوں نے قیادت پر انگلیاں اٹھائیں کہ جب وہ اس قسم کے پیراشوٹرز پارٹی میں لائیں گے تو وہ اسی طرح جائیں گے۔ اب چوہدری سرور کی دوبارہ ن لیگ سے رابطوں کی خبریں گرم ہیں لیکن اب ن لیگ کے قائدین چوہدری سرور کو لینے کو تیار نہیں ہیں، یہ پیغام چوہدری سرور کو بجھوا دیا گیا ہے۔