چھٹی کے بعد عمران دوبارہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے؟
باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ تین اپریل کو اپنے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان شہباز شریف کے خلاف دوبارہ سے وزارتِ عُظمیٰ کے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں. حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ عمران خان نے اپنی کچن کابینہ کے اجلاس میں مشورہ کیا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وزارت عظمی کے الیکشن میں کس شخص کو امیدوار ہونا چاہیئے۔ ان کی کچن کابینہ کے کچھ اراکین نے مشورہ دیا تھا کہ وزارت عظمی کے لیے شہباز شریف کے مقابلے میں شاہ محمود قریشی یا پرویز خٹک کو امیدوار بنایا جائے۔
لیکن اس تجویز کے بعد عمران خان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ شہباز شریف کے خلاف خود امیدوار بننا چاہتے ہیں تاکہ تحریک انصاف کا امیدوار زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکے۔ اس دوران یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تحریک انصاف کے تمام اراکین اسمبلی 3 اپریل کے اجلاس میں شرکت کریں گے تاکہ طاقت کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ اس سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کو عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے کوئی بھی حکومتی رکن اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے آئینی طریقے کے مطابق وزیر اعظم کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک پر رائے شماری شروع کرنے سے قبل سپیکر قومی اسمبلی پارلیمان کی عمارت میں پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائیں گے تاکہ جو ارکان قومی اسمبلی کے ایوان سے باہر لابی یا پارلیمان کی عمارت کی راہدایوں میں ہیں وہ ایوان میں آجائیں جس کے بعد ایوان کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا، تب تک کسی کو بھی قومی اسمبلی کے ایوان سے اندر اور باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ووٹنگ کا عمل شروع کرنے کے لیے سپیکر ایوان میں تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنائیں گے اور پھر ارکان قومی اسمبلی سے کہیں گے کہ جو اس تحریک کے حق میں ہیں، وہ ایک طرف موجود گیلری میں چلے جائیں جہاں قومی اسمبلی کا عملہ موجود ہو گا جو ان ارکان کی حاضری لگائے گا۔ ارکان قومی اسمبلی تب تک ایوان میں واپس نہیں آئیں گے جب تک سپیکر دوبارہ گھنٹیاں نہیں بجاتے۔ اس کے بعد گنتی کا عمل شروع کیا جائے گا، گنتی مکمل ہونے کے بعد سپیکر تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی گنتی کا اعلان کریں گے۔
اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہو گا کہ کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہو۔ یوں یہ منفرد اعزاز بھی 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے والے عمران خان کے حصے میں آ جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے قبل یکم نومبر 1989 کو سابق بے نظیر بھٹو اور اس کے بعد 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف بھی تحاریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں کارروائی ہوئی تاہم دونوں مرتبہ اپوزیشن کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا تھا۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی کے رول 38 کے تحت سپیکر قومی اسمبلی صدر کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے سیکرٹری تحریک عدم اعتماد کے نتائج کو سرکاری گزٹ میں شائع کروائے گے۔
اس عمل میں روایات کے مطابق دو سے تین دن لگ سکتے ہیں جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلایا جائے گا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں صدر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں گے جس میں نئے قائد ایوان کے انتخاب کا عمل شروع کیا جائے گا۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو جب توہین عدالت کے مقدمے میں نااہل قرار دیا گیا تو اس کے چند روز بعد قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا اور راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم منتخب ہو گئے تھے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں پوری کابینہ تحلیل ہو جاتی ہے اور اس کے بعد وزیر اعظم کے معاونین خصوصی بھی اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔ جس وقت وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد ان کا وی وی آئی پی سٹیٹس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے بعد صدر کی ہدایت پر قومی اسمبلی کا نیا اجلاس طلب کرے گا جس میں قائد ایوان کا انتخاب ہو گا۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی کے رولز میں واضح طور پر ہدایات نہیں ہیں لیکن روایات کے مطابق دو سے تین دن میں سپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس طلب کرنا ہو گا اور اس اثنا میں صدر آئین کے آرٹیکل 94 کے تحت انھیں اگلا وزیر اعظم منتخب ہونے تک عہدے کی ذمہ داریاں پورا کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ قائد ایوان کے انتخاب کے عمل میں ایک یا ایک سے زیادہ امید واروں کے کاغذات نامزدگی سے لے کر کاغذوں کی جانچ پڑتال کا عمل بھی ہوگا جس کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہو گا۔ ایک رکن کو ایک سے زیادہ مرتبہ امیدوار نامزد کیا جا سکتا ہے لیکن تائید کنندہ اور تجویز کنندہ ایک سے زیادہ مرتبہ دستخط نہیں کریں گے۔ اسی طرح تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہارنے والی جماعت کسی دوسرے امیدوار کو نامزد کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ اس شخص کو بطور امیدوار بھی نامزد کر سکتی ہے جو پہلے ہار چکا ہو۔ اس پر بھی قواعد و ضوابط کے تحت کوئی پابندی نہیں ہے۔
گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کامیاب ہونے والے قائد ایوان کے نام کا اعلان کریں گے۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے شہباز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے اور بظاہر متحدہ اپوزیشن کے پاس اکثریت حاصل ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی آئی قائد ایوان کے لیے اپنا امیدوار نامزد کرے گی کیونکہ پی ٹی آئی کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ ہر فورم پر مخالف سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کریں گے۔تاہم یہ واضح نہیں کہ عمران خان نے خود کو شہباز شریف کے مقابلے میں وزارت عظمی کا امیدوار بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے یا نہیں؟