ایک ہوتا تھا ڈرائیور…!

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

 

میں عمر کے طویل حصے میں اپنی کار خود ڈرائیو کرتا تھا۔ میری بدقسمتی کہ میں نے بالآخر ایک ڈرائیور ملازم رکھ لیا۔ ذیل میں اُس ڈرائیور کا خاکہ ہے۔

میرا ڈرائیور ڈرائیونگ کے علاوہ سب کچھ جانتا ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ سیاست، سفارت، مذہب، معیشت اور صحافت وغیرہ کے بارے میں اُس کا علم اِن شعبوں کے ماہرین سے زیادہ ہے۔ وہ اِن موضوعات پر اظہارِ خیال اکثر ڈرائیونگ کے دوران کرتا ہے۔ میں اُسے ٹوکتا ہوں کہ وہ اپنا دھیان صرف ڈرائیونگ کی طرف رکھے لیکن اُسے میرا ٹوکنا ہر بار سخت ناگوار گزرتا ہے۔

 ایک دفعہ وہ مجھے اِس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ملک سیاست دانوں نے تباہ کیا ہے۔ دورانِ گفتگو وہ گردن پچھلی سیٹ کی طرف موڑ کر میرے تاثرات کا جائزہ بھی لیتا جاتا تھا جس کے نتیجے میں گاڑی سڑک کے ساتھ واقع ایک کھڈے میں جاگری اور یوں گاڑی کا انجر پنجر ہل گیا۔ چنانچہ میں اِس بات کا تو قائل نہ ہو سکا کہ سیاستدانوں نے ملک تباہ کیا لیکن یہ بات بالکل یقینی تھی کہ ڈرائیور گاڑی ضرور تباہ کرتا ہے۔

میرا یہ ڈرائیور عجیب و غریب عادات کا مالک ہے۔ مجھے تو اُس کی بالکل سمجھ نہیں آتی، جہاں گاڑی کی رفتار آہستہ کرنے کی ضرورت ہو وہاں یہ تیز رفتاری پر اُتر آتا ہے اور جہاں تیز چلانے کی ضرورت ہے وہاں یہ گاڑی اتنی آہستہ کر دیتا ہے کہ چلتی گاڑی میں سے اُتر کر اُس میں دوبارہ سوار ہوا جا سکتا ہے۔

ایک دن سڑک پر ٹریفک بے پناہ تھااور موصوف ایکسیلیٹرپر دباؤ ڈالتے ہوئے زگ زیگ بناتے سب سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے کہا بھائی احتیاط سے گاڑی چلاؤ کیوں ایکسیڈنٹ کراؤ گے؟ بولا جناب اتنی ڈھیر ساری گاڑیاں مسلسل دھواں چھوڑ رہی ہیں جو آپ کی صحت کیلئے مضر ہے۔ میں چاہتا ہوں آپ آلودگی سے پاک فضا میں سانس لیں۔ میرے نزدیک سب سے قیمتی آپ کی جان ہے۔ باقی سب کچھ اس کے بعد ہے۔

 اس کی ان باتوں کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہئے تھا یعنی ایک ریڑھے پر لدے ہوئے سریوں میں سے ایک سریا گاڑی کی اسکرین سے ٹکرایا ہم دونوں کی جان تو بچ گئی لیکن ہزاروں روپے کی نئی اسکرین ڈلوانی پڑ گئی۔صرف یہی نہیں، میرا ڈرائیور رستوں سے بھی ناواقف ہے جس کے نتیجے میں وہ منزل سے بہت آگے نکل جاتا ہے اور پھر یوٹرن لے کر واپس آتا ہے۔ کئی دفعہ ایسے بھی ہوا کہ وہ منزل کے قریب سے گزر گیا اور بعد میں جا کر اسے یاد آیا کہ جہاں جانا تھا وہ جگہ تو کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ چنانچہ اسے ریورس گیئر لگانا پڑتا ہے اور اتنا ریورس چلتا ہے کہ ایک دفعہ پھر منزلِ مقصود نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔

دھونکل شریف کا مرید اور اقبال احمد کی نصیحت

جب میں نے اسے ڈرائیور رکھا تو اس کی عادات کے مطالعہ سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بہت تند خو اور جھگڑالو قسم کا انسان ہے۔ کوئی گاڑی اگر اس کے قریب سے تیزی سے گزرتی تھی تو یہ اس کا پیچھا کرتا تھا اور پھر اس کے برابر پہنچ کر کھڑکی میں سے سر باہر نکال کر اس کے ڈرائیور کو برا بھلا کہتا تھا یا اگر کوئی راہ گیر چلتے چلتے کھڑی گاڑی کو بھی ہاتھ لگا دیتا تو یہ اس کے گلے پڑ جاتا تھا۔

 ایسے مواقع پر وہ میری موجودگی کا بھی خیال نہیں کرتا تھا اور یہ نہیں سوچتا تھا کہ اگر بات بڑھی تو اس کی زد میں اس کے علاوہ میں بھی آؤں گا مگر ایک روز یوں ہوا کہ ایک تیز رفتار گاڑی ہماری گاڑی کو کٹ مار کر تیزی سے آگے نکل گئی جس سے ایک بڑا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔

 اس دفعہ میں نے اس سے کہا کہ گاڑی کا پیچھا کرو۔ چنانچہ اس نے گاڑی کا پیچھا کیا مگر اس گاڑی کے ڈرائیور نے یہ دیکھ کر کہ اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے، خود ہی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر دی صرف یہی نہیں بلکہ اس کا ڈرائیور بھی جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں، دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر آ گیا۔ میرا ڈرائیور اس کے پاس گیا اس سے بہت عقیدت کے ساتھ مصافحہ کیا۔ پھر ہنس ہنس کر اس سے کچھ باتیں کیں اور پھر اس سے معانقہ کر کے واپس اسٹیرنگ پر آ کر بیٹھ گیا۔

میں نے کہا تم تو بہت غصیلے آدمی ہو مگر آج تم ایک ایسے شخص کے ساتھ بہت لجاجت سے باتیں کر رہے تھے جو ہماری جان لینے پر تلا ہوا تھا۔ کہنے لگا جناب وہ بہت غلط قسم کا آدمی تھا مجھے تو اس کی مونچھوں ہی سے اندازہ ہو گیا تھا مگر جب میں نے نیفے کے قریب سے اس کی قمیص ابھری ہوئی دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اس کے پاس کوئی اسلحہ ہے۔ جناب! مجھے اپنی جان کی پروا نہیں، میرے نزدیک سب سے پہلے آپ کی جان ہے چنانچہ جھگڑا کئے بغیر واپس آ گیا۔

جیسا کہ میں نے آپ کو شروع میں بتایا، میں اپنے ڈرائیور کو اس کے ان رویوں پر ٹوکتا رہتا ہوں مگر وہ ہر بار ناراض ہو جاتا ہے اور کہتا ہے صاحب! ایک آپ ہیں جسے میری ڈرائیونگ پر اعتراض ہے اور میری عادات بھی آپ کو پسند نہیں ہیں حالانکہ ساری دنیا میری تعریفیں کرتی ہے۔ آپ کو میری قدر ہی نہیں ہے۔ شاید وہ ٹھیک کہتا ہے۔ میں ہی پاگل ہوں چونکہ میں کسی پھڈے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ لہٰذا اگر میرے کسی سائیکاٹرسٹ قاری کی نظر میں میرے اس ڈرائیور کی تحلیلِ نفسی کا کوئی نسخہ ہو تو وہ مجھے بتائے۔

پس پشت:میں نے کالم کی سرخی ’’ایک ہوتا تھا ڈرائیور‘‘ دل کا غبار نکالنےکیلئے لگائی ہے، ورنہ یہ ’’تھا‘‘ نہیں، بدبخت آج بھی میرا ڈرائیور ہے۔

Back to top button