کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے
پاکستانی عسکری قیادت کے افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، جس کے دوران سرحد کے دونوں جانب قیام امن کے لیے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
مذاکرات کا آغاز پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی جانب سے باضابطہ منظوری کے بعد کیا گیا ہے، کابل میں چھ جولائی کو ہونے والی نشست سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں پہلے سے چلنے والے ایجنڈے پر بات ہوئی ہے اور ان تجاویز پر گفتگو ہوئی کہ کس طرح ایک امن معاہدے کی طرف پیش رفت ہو سکے، دونوں جانب سے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی۔
ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی نگرانی کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کی بھی منظوری کی بات بھی سامنے آئی تھی جو آئینی حدود میں اس عمل کی نگرانی کی ذمہ دار ہوگی، سکیورٹی سے متعلق معاملات میں سکیورٹی ادراوں کا کردار اہم ہوتا ہے لیکن ’سیاسی ملکیت‘ بھی بہت ضروری ہے۔
ٹی ٹی پی مذاکرات کے مسئلے میں قبائلی مشران اور ان سیاسی اور مذہبی شخصیات کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے جن کی بات سنی جاتی ہے ، ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی ممکنہ معاہدے کے بعد اس گروپ کے جنگوؤں کی واپسی ایک اہم معاملہ ہوگا، پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں حکومت اور اپوزیشن قیادت کو نظرانداز کرنا بھی بڑی غلطی ہوگی۔
جون کے آخری ہفتے میں سراج الدین حقانی کے ساتھ کابل میں ٹی ٹی پی سے پاکستانی حکومت کے مذاکرات کے حوالے سے طویل گفتگو ہوئی، اگست میں طالبان حکومت بننے کے بعد کابل میں اکثریت کا موقف تھا کہ افغانستان میں 20 سال کی جنگ ختم ہوئی ہے تو پڑوسی ملک میں بھی تشدد کے واقعات کا خاتمہ ہو کیونکہ پاکستان میں جاری تشدد افغانستان پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا۔
سراج الدین حقانی مذاکرات کے دوران پاکستانی فریقین کے جانب سے ایسے بیانات دینے کے مخالف تھے جو مذاکرات پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں، رانا ثنااللہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہی ہوں گے، آئین سے بالاتر کسی معاملے اور مطالبے پر بات چیت نہیں ہوگی اور نہ ہی ملک کے آئین سے ماورا کوئی معاہدہ کیا جائے گا۔
اگرچہ پاکستانی حکومتوں کا یہ موقف نیا نہیں لیکن مذاکرات کے دوران اگر بیانات کو کچھ عرصے کے لیے روک دیا جائے تو یہ اعتماد سازی کے لیے اہم ہوگا، ویسے بھی پاکستانی مذاکراتی ٹیم آئین سے متعلق پاکستانی موقف واضح کر چکی ہوگی۔
پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات ویسے بھی ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے اور اس میں احتیاط کی ضرورت ہے، فریقین کی جانب سے غیر ضروری اور نامناسب بیانات ثالث کے لیے بھی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سراج الدین حقانی نے بیانات سے احتراز کرنے کا کہا ہے۔
سراج الدین حقانی نے مذاکرات میں قبائلی مشران کے کردار کی اہمیت کا بھی ذکر کیا، ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مذاکرات پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور مسائل کا حل بھی دونوں فریقین ہی نے نکالنا ہے تو ثالث پر دباؤ ڈالنے کی کوشش غیر ضروری عمل ہوگا۔
ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ تازہ رابطہ عید الاضحیٰ سے پہلے ہوا تھا، اس سے پہلے سکیورٹی اداروں کے کہنے پر یکم اور دو جون کو کابل میں پشتون مشترکہ جرگے نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کی تھی، جرگے کی خبریں میڈیا میں آنے کے بعد سیاسی جماعتوں نے جرگے کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر سوالات اٹھائے تھے۔
حکومتی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے مذاکرات کا معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا تھا، اس فیصلے کے فوری بعد متعلقہ سکیورٹی اہلکاروں کا ٹی ٹی پی رہنماؤں کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ فوری رابطہ ظاہر کرتا ہے کہ سکیورٹی ادارے جلدی کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے مذاکرات عمل میں جلدی کرنا اہم ہے لیکن شدت پسندوں کے ساتھ ماضی میں ہونے والے معاہدوں کی ناکامی سے بھی سبق سیکھنا چاہئے اور ایسا معاہدہ ہونا چاہئے جس سے ملک میں پائیدار امن کا قیام یقینی ہو۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے تو غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کا اعلان جون میں جرگے سے مذاکرات کے موقع پر کیا گیا تھا جس پر عمل ہو رہا ہے لیکن اس دوران وزیرستان بالخصوص شمالی وزیرستان میں تشدد کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
اگرچہ سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے لیکن قبائلی اور شدت پسندی پر رپورٹنگ کرنے والے دیگر صحافیوں کا موقف ہے کہ ان حملوں میں حافظ گل بہادر کا گروپ ملوث ہے جو شمالی وزیرستان میں ایک فعال گروپ رہا ہے، حافظ گل بہادر گروپ کبھی بھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں رہا ہے۔
ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ٹی ٹی پی کے ساتھ ہی مذاکرات کرنا کافی نہیں بلکہ تشدد کے مکمل خاتمے کے لیے ٹی ٹی پی کے علاوہ گل بہادر جیسی دوسری عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ بھی معاملات حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔