کرونا وائرس نے کس طرح دنیا کی سپر پاورز کو زیر کردیا

کرونا وائرس سے پھیلنے والی جان لیوا وبا نے دنیا کی بڑی بڑی سپر پاورز کو زیرو کر دیا ہے۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے ممالک اپنی عوام کو اس وبا سے بچانے میں قطعی ناکام ہو چکے ہیں اور لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہیں۔ قدرت نے اپنی طاقت کو نہ صرف ایک نادیدہ وائرس کے ذریعے دوبارہ سے منوایا ہے بلکہ انسان کو گھٹنے ٹیکنے پر بھی مجبور کر دیا ہے- زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ کرونا وائرس نے سب سے زیادہ تباہی فرسٹ ورلڈ میں مچائی جہاں امریکہ، انگلینڈ، فرانس، اٹلی اور سپین میں ایک لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ کرونا کی تباہ کاریوں کے دوران دنیا میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے کے نارمل حالات میں ان کا ہونا ممکن نہ تھا۔
امریکہ جیسی سپر پاور نے اپنے ملک میں میکسیکو جیسے پسماندہ ملک کے لوگوں کا داخلہ روکنے کے لیے دونوں ملکوں کے بارڈر پر ایک دیوار بنانے کا فیصلہ کیا تھا- اس دیوار کو ٹرمپ وال کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو کہ امریکہ کی جانب تعمیر کی گئي تاکہ میکسیکو کے لوگ امریکہ میں غیر فانونی طور پر داخل نہ ہو سکیں- مگر جب کرونا وائرس کی وبا امریکہ میں بری طرح پھیلی تو اس دیوار کا استعمال میکسیکو کے صدر نے امریکیوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے کیا جو کہ کرونا سے بچنے کے لیے میکسیکو میں داخل ہونا چاہتے تھے-
فرانس میں حجاب پہننے پر قانونی طور پر پابندی عائد تھی اور اس حوالے سے مسلم حلقوں کی جانب سے بارہا آواز اٹھائی گئی مگر مسلمان عورتوں کو حجاب پہننے کی اجازت حاصل نہ مل پائی تھی- مگر اس وبا کے اثر نے فرانس کی حکومت کو اتنا مجبور کر ڈالا کہ اس نے بغیر ماسک کے گھر سے باہر نکلنے پر شہریوں کو سزا دینے کا اعلان کر دیا۔ آج فرانس کا ہر شہری گھر سے باہر نکلتے ہوئے چہرہ چھپانے پر مجبور ہے- امریکی صدر جو کہ مسلمانوں کے کٹر ترین دشمن قرار دیے جاتے ہیں اپنی تقریر میں بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر ملک میں ماسک کی کمی ہے تو اس سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ آپ مسلمانوں کے حجاب کی طرح چہرے پر نقاب لگا لیں-
ایسے وقت میں کی جب خانہ کعبہ کو غیر ملکیوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور دنیا بھر کے اسلامی ممالک نے باجماعت نمازوں پر لاک ڈاؤن کے سبب پابندی لگا رکھی ہے، اذان کی صدائيں نہ صرف پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں، اسپین جیسے ملک بھی جہاں سالوں سے اذان پر پابندی تھی اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھا ہے- اسی طرح امریکی پارلیمنٹ میں بھی خیر و برکت کے لیے تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کیا گیا ہے-
صومالیہ کا شمار دنیا کے انتہائی غریب ممالک میں کیا جاتا ہے، اسکے سابقہ وزیر اعظم نور حسن حسین جو کہ 2007 سے 2009 تک برسر اقتدار رہے، صومالیہ چھوڑ کر برطانیہ آن بسے تاکہ اپنی بقیہ زندگی سکون سے گزار سکیں- مگر وہ برطانیہ میں کرونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے۔ دوسری طرف اٹلی جیسے ملک کے ایک وفد نے صومالی حکومت سے پناہ کی درخواست کر دی کہ وہ اپنے ترقی یافتہ ملک میں رہنے کے بجائے اس پسماندہ ملک میں رہ کر وائرس سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں-
اسپین کی سرحدین مراکش سے ملتی ہیں جہاں کی خانہ جنگی کے سبب مراکشی تارکین وطن اپنی جان بچانے کے لیۓ لائف بوٹس کے ذریعے اسپین میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تھے جن کا راستہ روکنے کے لیۓ اسپین کی حکومت ہر ممکن اقدامات کرتی تھی- مگر آج حالت یہ ہے کہ اسپین کے لوگ اس وبا کے پھیلنے کے بعد انہی لائف بوٹس کا استعمال کر کے اپنی جان بچانے کے لیے مراکش میں پناہ لینے کی کوششیں کرتے نظر آرہے ہیں- یہ تمام واقعات دنیا کو صرف اور صرف یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے بیشک وہی خدا ہے-