کپاس بیچنے والا پاکستان اب کپاس خریدنے والا ملک کیوں بن گیا؟

کپتان کی تبدیلی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے نیا پاکستان کپاس یا کاٹن برآمد کرنے والے ملک سے کپاس درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی کپاس کی تباہی میں بڑا ہاتھ شوگر مافیا کا ہے جس سے وابستہ افراد اہم ترین افراد حکومتی عہدوں پر تعینات ہیں اور گنے کی مھبت میں کپاس دشمن پالیسیاں آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ کاٹن ملک کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری یعنی ٹیکسٹائل سیکٹر کے لئے انتہائی اہم ہے، جس سے لاکھوں نہیں بلکہ کرڑوں پاکستانیوں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر روزگار وابستہ ہے۔ لیکن شوگر مافیا کی وجہ سے اب کپاس کی بجائے ملک بھر میں گنے کی کاشت کو ترجیح دی جارہی ہے۔
کپاس کی کم کاشت کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت کاٹن کی تاریخی کمی کا سامنا ہے۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2021 کے اختتام تک پاکستان میں کاٹن کی پیداوار گذشتہ سال کے مقابلے میں 34 فیصد تک گر چکی ہے۔ کاٹن کی کم پیداوار سے پاکستان کا ٹیکسٹائیل کا برآمدی شعبہ شدید مشکلات کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان میں کاٹن اور ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین کے مطابق کاٹن کی پیداوار میں اس سال ہونے والی ریکارڈ کمی اچانک رونما نہیں ہوئی بلکہ تسلسل سے اس میں کمی آ رہی تھی۔
گذشتہ چند برسوں میں شوگر مافیا کے بڑھتے یوئے دباو کے باعث کاٹن کاشت کرنے کے رقبے میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص بیچ نے مجموعی طور پر کاٹن کی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے اور حالت اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار کے لیے ریکارڈ کاٹن بیرون ملک سے درآمد کر رہا ہے۔
اس سال جنوری تک پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 55 لاکھ کاٹن گانٹھیں فیکٹریوں میں پہنچیں جو گذشتہ سال تقریباً 85 لاکھ تھیں۔ چنانچہ لاہور چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے اب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں کاٹن ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ لاہور چیمبر کے صدر طارق مصباح نے دعوی کیا ہے کہ کپاس کی پیداوار کم ہونے سے پاکستانی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں لہذا صورت حال حال پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ شوگر کی صنعت سے وابستہ افراد انتہائی طاقتور ہیں اور وہی کپاس کی پیداوار میں کمی کے ذمہ دار ہیں۔ واضح رہے کہ جہانگیر ترین، گجرات کے چودھری برادران، اور سابق وزیر اعظم نوازشریف سمیت کئی نامور سیاست دان شوگر کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ بھی اس صنعت میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق حکومت نے شوگر انڈسٹری اور گنا اگانے والوں کو سپورٹ پرائس دی ہے جو کہ کپاس اگانے والوں کو نہیں دی جاتی۔ انکا کہنا ہے کہ شوگر مافیا والے حکومت کو مختلف حربوں سے لوٹتے ہیں۔ جب آپ سپورٹ پرائس صرف گنا اگانے والوں کو دینگے، تو کسان تو وہی اگائے گا کیونکہ کاٹن میں تو اسے یہ رعایت حاصل نہیں ہے۔ اسی لئے کپاس کی کاشت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ اس صورتِ حال کے ممکنہ حل کے حوالے سے ڈاکٹر بنگالی کا کہنا تھا کہ، ”ٹھٹہ، بدین، سجاول اور سندھ کے چند ساحلی علاقوں کے علاوہ گنے کی کاشت پر پابندی لگائی جائے کیونکہ گنے کی کاشت کیوبا جیسے ساحلی ملکوں کے لئے موزوں ہے لیکن یہاں پنجاب اور بالائی سندھ میں بھی گنے کی کاشت کی جارہی ہے، جو انتہائی نقصان دہ ہے۔ ہم نے سب چیزیں مارکیٹ فورسز کے رحم وکرم پر چھوڑ دی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔‘‘
لیہ سے تعلق رکھنے والے کسان رہنما مظہر نواز خان ڈاکٹر قیصر بنگالی سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کپاس کو تباہ کرنے میں طاقتور لابی کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1985 میں جب نواز شریف اقتدار میں آئے تو اتفاق فاونڈری نے شوگر فیکڑیوں کے لئے مشینیں بنانا شروع کردیں اور پھر حکومتی پالیسی کے تحت اس طاقتور لابی کو مراعات بھی دینا شروع کردیں اور ساتھ ہی وہخود بھی اس کاروبار میں کود گئے۔ نوے کی دہائی میں کپاس کو سپورٹ پرائس دینا بند کردیا گیا اور شوگر کو یہ اسپورٹ پرائس دیا جانے لگا۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ ملتان، رحیم یار خان، ڈی جی خان، خانیوال، بہاولپور، بہاولنگر، مظفر گڑھ سمیت کئی علاقے جہاں کپاس اگائی جاتی تھی، آج وہاں ہزاروں ایکڑز پر گنا اگایا جارہا ہے، جس سے کپاس کا کاشت کار بے حال ہورہا ہے۔
تاہم مظفر گڑھ فارمرز ایسویشن سے تعلق رکھنے والے کاشتکار ملک تحسین رضا اس دلیل سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گنے کی فصل پورے سال کے لئے اگتی ہے جب کہ کپاس صرف چار مہینوں کے لئے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسان کپاس اگاتا ہے تو وہ سال کے باقی مہینوں میں گندم یا دوسری فصل اگاسکتا ہے، تو میرے خیال میں گنا اگانا اسکے لئے مالی اعتبار سے موزوں نہیں۔ ملک تحسین رضا کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں ابھی بھی سوا چار لاکھ ایکٹرز پر کپاس کاشت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے کپاس کی فصلوں پر کیڑوں یا بیکٹیریا کے حملے ہورہے ہیں۔ جب بھئ کپاس تیاری کے قریب ہوتی ہے تو کیڑے مکوڑوں کے حملے شروع ہوجاتے ہیں لیک ہمارے پاس بہتر کوالٹی کی کیڑے مار ادویات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں کمی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی عدم فراہمی بھی کچھ علاقوں میں کپاس کی پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ اسی لئے ذیادہ تر بڑے جاگیردار کپاس کی بجائے گنے کی کاشت کی طرف جارہے ہیں۔