کپتان کی لیٹر گیٹ سکینڈل سے شہید بننے کی ناکام کوشش


ایم کیو ایم کی جانب سے اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنی حکومت ختم ہوتی دیکھ کر وزیراعظم عمران خان نے سیاسی شہید بننے کی کوششیں تیز کر دی ہیں اور اپنی فراغت کو غیر ملکی سازش ثابت کرنے کیلئے پھر سے دھمکی آمیز خط کا معاملہ اٹھا دیا ہے۔ 30 مارچ کو ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت چھوڑنے کا اعلان سامنے آنے کے بعد بجائے کہ وزیراعظم ناراض اتحادیوں کو منانے کی کوشش کرتے انہوں نے دوبارہ سے دھمکی آمیز خط کا ہوا کھڑا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ انہوں نے نادرا کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ایک بیرونی سازش کا حصہ ہے۔ بعد ازاں جب ایم کیو ایم کے دو وفاقی وزراء نے وفاقی کابینہ سے استعفے دے دیے تو وزیراعظم نے یہ اعلان کیا کہ انہوں نے مبینہ دھمکی آمیز خط چند سینئر صحافیوں اور اپنے اتحادیوں کو دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی بہانے انہوں نے ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کے پارلیمانی رہنماؤں کو بھی ایک حکومتی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تاکہ انہیں خط دکھایا جا سکے۔ لیکن اسی دوران انھیں یہ مشورہ دیا گیا کہ چونکہ اس طرح کی خط و کتابت خفیہ ہوتی ہے لہذا اگر اسے میڈیا کے ساتھ شیئر کیا گیا تو انکے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا کیس بھی بن سکتا ہے۔ چنانچہ حکومت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ مبینہ دھمکی آمیز خط صحافیوں کو نہیں دکھایا جائے گا۔ پھر یہ پتہ چلا کہ وزیراعظم نے مبینہ خط اپنی کابینہ کے کچھ وزرا کے ساتھ شیئر کیا ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے ا گیا کہ جو خط وہ ادھر ادھر دکھا رہے ہیں اسے پارلیمینٹ کے ساتھ شئیر کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وزیراعظم اس معاملے پر خاموش ہیں۔
دوسری جانب سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت ختم ہوتی دیکھ کر اب اپنی ناکامیوں کا مدعا اپوزیشن اور بیرونی طاقتوں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران کی حکومت ان کی اپنی ناکامیوں کی وجہ سے ختم ہونے جارہی ہے کیونکہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں اور اپنی ہی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی کو ساتھ نہیں چلا پائے۔ اب اگر وہ اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام بیرونی طاقتوں پر لگاتے ہیں تو یہ ایک لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔ سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے رہے ہیں اور یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ اپوزیشن اس سازش کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مبینہ خط تو چند ہفتے پہلے لکھا گیا جبکہ اپوزیشن انہیں اقتدار سے نکالنے کے لیے پچھلے ساڑھے تین برسوں سے کوشش کر رہی ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا موقف ایک مذاق لگتا ہے کیونکہ اگر اپوزیشن اس سازش میں شریک ہے اور غداری کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدھے سے زیادہ پاکستانی بھی غدار ہیں۔
واضح رہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت سے مطالبہ کر چکی ہے کہ اس خط کو پارلیمنٹ یا قومی سلامتی کمیٹی میں لایا جائے۔ ایسے میں کئی اہم سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ یہ گمنام خط کس نے لکھا؟ کیا یہ خط لکھنے والا کوئی بیرونی ملک ہے؟ خط حکومت کو کب موصول ہوا؟ سوال یہ بھی ہے کہ اسے پہلے منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا؟ اس خط کے مندرجات خفیہ رکھتے ہوئے صرف مخصوص اور مبہم معلومات ہی کیوں ظاہر کی جا رہی ہیں؟ اور اگر یہ خط واقعی دھمکی آمیز اور سفارتی چیلنج ہے تو اسے قومی سلامتی کے معاملے کی بجائے سیاسی شہید بننے کے لیے سیاسی ہتھیار کی طرح کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے خط پر چند سوال اٹھائے۔ ان کا پہلا سوال خط کی صداقت سے متعلق تھا۔ ‘انکا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ یہ خط کہاں سے آیا، اس پر بھی شک ہے اور اسکی صداقت پر بھی شک ہے۔’ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘اگر میں سیکریٹری خارجہ ہوتا تو میں کہتا کہ انٹیلیجنس ایجنسی سے پوچھو کہ ان کو کیا پتہ ہے۔ آئی ایس آئی کو کیا پتہ ہے، آئی بی اور دیگر ایجنسیز کو کیا پتہ ہے؟ اگر سب کا جواب اس نوعیت کا ہو کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں تو اس کو کوڑے دان میں ڈال دیں۔’ جب ان سے سوال کیا گیا کہ حکومت خط چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سامنے رکھنے کو تیار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ‘چیف جسٹس کیا کریں گے؟ وہ بھی کہیں گے کہ خفیہ اداروں کو بلائیں، دفتر خارجہ کو بلائیں۔’ انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس معاملے پر نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا گیا یا انٹیلیجنس ایجنسی کی جانب سے ایسی کوئی چیز رپورٹ ہوئی؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ’ایجنسیز کو اعتماد نہیں کہ یہ خط کہاں سے آیا۔‘ نجم الدین شیخ کے مطابق اگر کوئی دوسرا ملک ملوث ہو تو بھی ’کسی ملک کے نمائندے کو بلانے سے پہلے یہ حتمی طور پر طے کرنا چاہیے کہ آیا اس میں صداقت ہے بھی یا نہیں۔‘
خط پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ ‘پہلے عمران خان کہتے تھے کہ میری دعا تھی کہ تحریک عدم اعتماد آئے، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بیرونی سازش ہے، پہلے آپ کہتے تھے کہ میرے خلاف سازش میں سندھ حکومت کا پیسہ لگ رہا ہے، اب موصوف کہتے ہیں کہ پیسہ باہر سے آ رہا ہے، جب کہ خود حکومت بھی وہی کر رہی ہے جو اپوزیشن کر رہی ہے، یعنی عہدوں کی آفر کر رہی ہے۔ ہم نے تو پیسہ چلتے کہیں نہیں دیکھا۔’ حامد میر کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں یہ خط ایک سیاسی ہتھیار ہے کیوں کہ جس مبینہ خط کا ذکر ہے، کہا گیا کہ وہ سات مارچ کو موصول ہوا اور آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد آگئی جب کہ میں تین ماہ پہلے لکھ چکا تھا کہ تحریک عدم اعتماد آ رہی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘اگر واقعی کسی نے دھمکی دی ہے دھمکی دینے والے کا نام بتائیں، ایک فورم ہے نیشنل سکیورٹی کمیٹی، اس خط کو وہاں لے کر جائیں۔ اس ملک کے سفیر کو بلائیں، یا اسے ملک سے نکال دیں۔ اگر آپ یہ نہیں کرتے، اور حکومت پہلے ہی عدم اعتماد پر ریفرنس لے کر عدالت جا چکی ہے، تو چیف جسٹس کو خط دکھانے کی پیشکش کے ذریعے عدالتوں کو کیوں سیاسی معاملات میں گھسیٹتے ہیں۔’
حامد میر کے بقول ‘لیٹر گیٹ سکینڈل سے عمران آسانی سے نہیں بچیں گے، وہ بتائیں کہ واقعی یہ خط کسی غیر ملکی سفیر نے لکھا، صرف ملک کا نام بتا دیں تاکہ ہم جان سکیں کہ ایسا کون سا ملک ہے جو اس طرح کھلے عام دھمکی آمیز خط لکھنے کی حماقت کرتا ہے۔’ انھوں نے کہا کہ ‘اگر یہ خط کسی پاکستانی سفارت کار کا ہے تو پھر وہ پی ٹی آئی کا ورکر ہو گا، سفارت کار نہیں ہو سکتا۔’

Back to top button