کیاجسٹس فائز عیسیٰ بھی سیاسی تنقید کا نشانہ بننے والے ہیں؟
نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ایک ایسے وقت میں اپنے عہدے کا چارج سنبھال رہے ہیں جب پاکستان کی عدلیہ مکمل طور پر متنازع ہوچکی ہے۔ ان کے پیشرو جسٹس عمرعطا بندیال کی تنازعات سے بھرپور مدت ملازمت نے پاکستان میں عدلیہ کے کردار کو شدید نقصان پہنچایا ہے ، عمر عطا بندیال اپنے مختلف مقدمات میں فیصلوں، بینچز کی تشکیل اور فل کورٹ تشکیل نہ دینے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کے جانشین قاضی فائز عیسیٰ بھی انہی کی طرح سیاسی تنقید کا نشانہ بنیں گے یا پھر عدلیہ کا کھویا ہوا وقار بحال کرکے پاکستان کے عوام کو نئی امید دلائیں گے ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے. وہ کہتی ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023، سویلنز کے فوجی عدالتوں میں مقدمات، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس سمیت دیگر اہم مقدمات سنے تاہم ان مقدمات کے فیصلے نہ ہوسکے۔ اب ان کیسز کا فیصلہ کرنا نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے کندھوں پر ہی آن پڑا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے جو اہم چیلنجز ہوں گے، ان میں سب سے بڑا اور اہم ترین چیلنج ملک میں انتخابات کا انعقاد ہے کیونکہ اس سلسلے میں گھوم پھر کر معاملات سپریم کورٹ کے سامنے ہی آئیں گے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے باعث الیکشن کا انعقاد 90 روز میں ہونا ناممکن دکھائی دے رہا ہے تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کی جلد تاریخ کا پریشر اور صدر کی جانب سے لکھے گئے خط نے بھی نئے سوالات جنم دے دیے۔ اسی طرح پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے نظر ثانی پر سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر ہے، اب اس پر بھی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہی کرنا ہے۔
کالم میں غریده فاروقی کا کہنا ہے کہ ایک اور معاملہ عدالتی اصلاحات کا ہے اور اسی سے منسلک کیس ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کا، جو کہ قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس پہلا کیس بھی ہوگا۔ اس سلسلے میں ان کے خیالات بھی واضح ہیں جس کی مثال ان کا ازخود نوٹس کے اختیار پر نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ ایک شخص یعنی چیف جسٹس کے پاس حد سے زیادہ اختیارات نہیں ہونے چاہییں، اب جب یہ کیس ان کے سامنے آرہا ہے تو ان کے ریمارکس کیا ہوں گے وہ بھی قابل غور ہوگا۔
اعلیٰ عدلیہ میں زیرالتوا کیسز بھی ایک اہم معاملہ ہے، جو جسٹس بندیال کے دور میں مزید بڑھ چکے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے ایک اور چیلنج یہ بھی ہوگا کہ وہ تحریک انصاف سے متعلق کیسز میں کیا فیصلے دیں گے کیونکہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کی کافی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، جو اس وقت جیل میں ہیں، ان کے دورِ حکومت میں قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھی لایا گیا جس میں پی ٹی آئی چیئرمین بذات خود شامل تھے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ عمران خان سے متعلق کیسز میں کیا فیصلے دیں گے کیونکہ تحریک انصاف اور ان کے وکلا نے جب جب ان کے خلاف فیصلے آئے ہیں، عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر پریشرائز کیا ہے، اب اس صورت حال میں قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
غریده فاروقی کہتی ہیں کہ قاضی فائز عیسٰی سے ن لیگ کی امیدیں بھی وابستہ ہیں کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اپنی وطن واپسی جانے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی موجودگی میں نہیں چاہتے تھے، اب چونکہ وہ نہیں ہوں گے تو امید ہے وہ واپس آجائیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے مختلف مقدمات میں فیصلوں، بینچز کی تشکیل اور فل کورٹ تشکیل نہ دینے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنے، اب کیا ان کے جانشین قاضی فائز عیسیٰ بھی انہی کی طرح سیاسی تنقید کا نشانہ بنیں گے یا پھر عدلیہ کا کھویا ہوا وقار بحال کرکے پاکستان کے عوام کو نئی امید دلائیں گے۔