کیا استعفے PTI کا سیاسی مستقبل تاریک کر دیں گے؟
وزارت عظمی سے نکلنے کے ردعمل میں عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کو ان کی ایک بڑی غلطی قرار دیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف تور پھوڑ کا شکار ہو کر اپنے سیاسی خاتمے کی جانب گامزن ہو سکتی ہے۔ استعفوں کی خبروں کے بعد ملک بھر میں بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا پی ٹی آئی کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہے یا نہیں، خصوصا جب اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران کے حامیوں نے طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی للکارنا شروع کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حمایتی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے عمران کی ایسی تصاویر وائرل کی جا رہی ہیں جن میں ان کے چہرے پر تشدد کے نشانات ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ 9 اپریل کی رات ان پر وزیر اعظم ہاؤس میں تشدد بھی کیا گیا۔ دوسری جانب ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پی ٹی آئی کے حامیوں نے جنرل باجوہ کے خلاف نعرے لگائے اور غلط زبان استعمال کی۔ ایسے میں ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ تمام اراکین قومی اسمبلی جن کو اسٹیبلشمینٹ نے اکٹھا کر کے عمران کی جھولی میں ڈالا تھا اور ان کی حکومت بنوائی تھی وہ اب مزید ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفوں کے اعلان کے باوجود 11 اپریل کے روز سپیکر قومی اسمبلی کے دفتر میں کوئی استعفے جمع نہیں کروایا گیا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے 20 منحرف اراکین اسمبلی نے استعفے نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ساٹھ سے ستر مزید پی ٹی آئی اراکین اسمبلی ان باغیون کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں جو عمران کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے نئی حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کے اعلان کے بعد کوئی بڑی سیاسی ہلچل کا امکان اسلیے موجود نہیں کے پی ٹی آئی کو اب طاقت ور عناصر کی حمایت حاصل نہیں رہی اور وہ حکومت میں بھی نہیں ہے، اس لیے اس میں اتنا دم خم نہیں رہے گا کہ وہ مزاحمت کر سکے۔ اس کے علاوہ عمران خان نے میڈیا کے ساتھ اپنے دور حکومت میں جو سلوک کیا اسکی بنا پر میڈیا بھی شائد ان کا ساتھ نہ دے۔ اس کیے ناقدین کا خیال ہے کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد پی ٹی آئی ہوا میں تحلیل ہوجائے گی خصوصا اگر عمران اور ان کے ساتھیوں نے اسمبلی سے واقعی استعفے دے دیئے۔
پی ٹی آئی رہنماوں کا خیال ہے کہ اجتماعی استعفوں سے حکومت پر جلد الیکشن کے لیے دباو بڑھے گا اور عمران کے امریکہ مخالف بیانیے کی مقبولیت کے باعث فوری الیکشن کا پارٹی کو فائدہ ہو گا۔ تاہم آئینی ماہرین کے مطابق استعفوں کے باجود نئی حکومت کے چلنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، اور اس عمل سے پی ٹی آئی کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو سکتا ہے۔ اس معاملے پر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر یہ استعفے دے بھی دیں تو پارلیمنٹ چل سکتی ہے اور نئی حکومت ضمنی الیکشن کا اعلان کر کے نظام چلا سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے لیے وقت آگیا ہے کہ اب صرف سیاست کا نہ سوچیں ملک کا بھی سوچیں۔ اگر عدم استحکام پھیلایا تو ان کو بھی نقصان ہوگا۔ ملک کو بھی معاشی نقصان ہوگا۔
سینئر اینکر پرسن نسیم زہرہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ اجتماعی استعفے دینا پی ٹی آئی کے لیے احمقانہ پالیسی ہوگی اور یہ حکومت کو واک اوور دینے کے مترادف ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سارے ایم این ایز استعفوں پر راضی بھی نہیں ہوں گے کیونکہ کسی ممبر کے لیے الیکشن میں حصہ لینا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جب اس کی جماعت اپوزیشن میں ہو اور حکومتی مشینری اس کے خلاف استعمال ہونے کا خدشہ ہو۔ اس لیے اگر عمران خان اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے تو خدشہ ہے کہ ان کے مزید ارکان منحرف ہوجائیں گے اور ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑے گی۔ شای زیب کے مطابق حکومت ان حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کر سکتی ہے اور پھر ضمنی انتخابات کی نوبت آنے سے پہلے ہی چند ماہ میں اسمبلیاں توڑ سکتی ہے۔ ایسے میں استعفیٰ دینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔