کیا الیکشن کا بائیکاٹ کرنا عمران خان کی غلطی ہو گی؟
سینئر صحافی اور کالم نگار امتیاز عالم نے کہا ھے کہ اس وقت پاکستان کی ساری سیاسی کشمکش پرو عمران اور اینٹی عمران کے مخمصے کے گرد گھوم رہی ہے۔ نہ کوئی انتخابی مہم ہے، نہ بیانیوں کی جنگ اور نہ عوامی اور قومی ایشوز پہ کوئی مباحث۔ الیکٹرانک میڈیا پہ سارے بحث مباحث نام لینے پر پابندی کے باوجود عمران خان کے گرد گھوم رہے ہیں ۔اگر بلا بیلٹ پیپر پر نہ بھی رہا، تب بھی میدان سجے گا بشرطیکہ عمران انتخابات کے بائیکاٹ کی غلطی نہ کریں۔ تحریک انصاف بلے کے نشان پہ انتخابات میں گئی تو ہر حلقے میں ایک نئی نسل پرانی نسل کے جغادریوں کو تگنی کا ناچ نچا دے گی۔ امتیاز عالم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ گنوانے کے بعد میاں نواز شریف کو سیاست و ریاست کے معاملات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردینے کے عزم کا خیال آیا بھی تو تب جب انکی سیاست کے دودھ میں صرف پانی ہی پانی رہ گیا ہے۔ اب پانی سر سے گزرنے کے بعد ”حکومت ہی نہیں، احتساب بھی چاہیے“ کا تقاضا ایسے ہے جیسے کوئی بچہ کھیلن کو مانگے چاند اور وہ بھی خالی میدان میں۔ جنہوں نے خالی میدان فراہم کرنا ہے، وہ چاند کیوں حوالے کرنے لگے۔ وہ کمند جو نواز شریف نے ستاروں پہ ڈالنی تھی، وہ انہوں نے برادر خورد کے ہاتھوں کبھی کی کمانداروں کے حوالے کردی۔ اب بیانیہ رہا، نہ عوامی حمایت!! بس ماورائی قوتوں کے سلیکشن بورڈ کی مرضی ہے کہ انتخابی اسناد کیسے بانٹے، کتنوں میں کتنی کتنی بانٹے۔ مسلم لیگ ن اپنے سیکرٹریٹ میں بیٹھی ایسے ٹکٹیں بانٹ رہی ہے جیسے کوئی حکمران جماعت ترقیاتی فنڈ بانٹتی ہے۔ پنجاب کے ایک ایک حلقے سے دسیوں درخواست گزار ہیں، جنکا قرعہ فال انتخابی نشان الاٹ ہونے تک صیغہ راز رہے گا کہ محرومین کی فوج ظفر موج مخالف کیمپ میں نہ چلی جائے۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ویسے بھی ٹکٹ کے فیصلے تو اب آسمانوں میں ہونے ہیں اور ابھی طے ہونا ہے کہ کس کو کتنی اوقات میں رکھا جانا ہے۔ مسلم لیگ ن کو کیا ملنا ہے، استحکام پاکستان پارٹی کا کیا حصہ ہوگا، آزاد پنچھی کتنے ہونگے اور بچی کھچی تحریک انصاف کو آزادانہ مقابلے کیلئے کھلا چھوڑا جانا بھی ہے کہ نہیں ۔ یہ سب اگلے ہفتوں میں پتہ لگ جائے گا۔ سیاست کی اس کنگالی میں 2017 کی غیر جمہوری سازش میں ملوث طاقتور کرداروں کے احتساب کا خواب دیوانے کی خوش فہمی کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ رائے عامہ پرانے زخموں کی بھولی بسری یاد میں آنسو بہائے یا پھر نئی مشقِ ستم کا شکار مقبول رہنما کیلئے آہیں بھرے۔17 ماہ کی شہباز حکومت اور پھر آئندہ انتخابات کیلئے ن لیگ کی ق لیگ ٹائپ کایا پلٹ کے بعد لیگی سیاست کے پلے بچا کیا ہے؟ ن لیگ تو ایسے بیٹھ گئی ہے جیسے ”بس بات ہوچکی ہے اور وزارت عظمیٰ پکی“ ہے۔ ایسے میں عوامی حمایت بچی ہے، نہ اسکی کسی کو کوئی پروا ہے۔ اب خالی خولی پھوکے نعروں سے پژمردہ سیاست کی لاش میں جان پڑنے والی نہیں۔ بیچ میں کہیں پیپلزپارٹی کی پرانی چنگاری چمکی بھی تو آصف علی زرداری نے اسے کیش کروا کے جوابی دعویٰ داغ دیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو بظاہر کوئی خطرہ نہ تھا اور اینٹی پی پی پی مہاجر پنجابی اتحاد کی کوشش سے فقط نسلی تقسیم تیز ہوتی جسکا فائدہ پیپلزپارٹی ہی کوہونا تھا۔ نوجوان بلاول بھٹو کی تیزی طراری کا جادو ابھی جما نہیں تھا کہ پدری شفقت نے پسری پرواز کے پر کاٹ دئیے۔ اب لیول پلینگ فیلڈ کی دہائی کا معاملہ شراکتی مسابقت میں بدل گیا ہے۔
امتیاز عالم کے مطابق 8 فروری کو انعقاد کے حوالے سے کنفیوژن کے پیچھے عوامی حمایت کا وہ ترپ کا پتہ ہے جو لگتا ہے کہ پابند سلاسل سابق وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ میں ابھی بھی برقرار ہے۔ ذرا پنجاب اور پختونخوا کے شہروں اور قصبوں میں نوجوان نسل کی ایک دیوانہ وار لہر ہے جو 8 فروری کو کرشمہ سازی کیلئے بے چین ہے۔ معاملہ فقط یہ نہیں کہ عمران خان اپنی تمام تر غلطیوں کے باوجود کتنا پاپولر ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ پرانے دور کی خاندانی جماعتیں اور انکی مستقل منجمد شکلیں کتنی غیر مقبول ہیں۔ رائے عامہ بلوچستان میں تو کب کی دفن کردی گئی ہے اور سندھ میں یہ بھٹو اور بینظیر کے خون سے تاریخی طور پر منجمد ہوکے رہ گئی ہے۔ اگر کہیں یہ متحرک ہے تو اسوقت پہلے نمبر پہ پختونخوا میں اور دوسرے نمبر پہ پنجاب میں جہاں یہ جب ابلے گی تو سب کچھ بہالے جائیگی۔ لگتا ہے کہ پختونخوا تو ہاتھ سے نکل گیا ہے بھلے مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کیسا ہی اتحاد کرلیں یا پھر بلاول بھٹو اور ایمل ولی خان سیکولر بنیاد پر اکٹھے ہوجائیں۔ رہ گیا پنجاب وہ فی الوقت سیاسی سکوت میں ہے جسکی تہہ میں چھپی نوجوانوں کی بیزاری کیا رنگ دکھائیگی، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔
امتیاز عالم پوچھتے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے جسکے ہر پاپولر لیڈر اور منتخب وزرائےاعظم کو ناانصافی کی سولی پہ چڑھایا جاتا رہا ہے۔ اگر ملک کے وزرائے اعظم ملک کے وفادار نہیں تو پھر کون ہے؟ اب آپ ملک کی سب سے پاپولر پارٹی کو میدان سے نکالنے یا اُس پر انتخابی زمین تنگ کرنے کے جو سو حربے اپنا رہے اس سے انتخابی عمل اور اسکے نتائج کے پلے کیا اخلاقی جواز بچ رہے گا۔ تاریخ بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے؟ کیا پنجاب کا بیزار نوجوان جمہوری کایا پلٹ سکتا ہے؟ ہاں! فقط اس شرط پر کہ وہ جمہوریہ کا داعی بنے اور محض ایک شخصیت کا پروانہ نہیں۔