کیا اپوزیشن سینیٹ الیکشن سے پہلے حکومت گرا پائے گی؟


20ستمبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں حزب مخالف کی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت گرانے کے لیے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آئندہ برس مارچ میں سینیٹ انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اگر مارچ سے قبل حکومت کا خاتمہ نہ ہوا تو تحریک انصاف اور اس کے اتحادی سینیٹ میں اکثریت حاصل کر لیں گے۔ ایسا ہو گیا تو آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں میں سے جس کی بھی حکومت آئی، اسے تحریک انصاف کی سینیٹ میں اکثریت بہت ٹف ٹائم دے گی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اپوزیشن جماعتوں کو اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہے کہ جیسے اب ان کی سینیٹ میں اکثریت کی وجہ سے تحریک انصاف حکومت 2018 سے مسلسل قانون سازی کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہے، مستقبل میں یہی حال مسلم لیگ نون یا پیپلزپارٹی کا بھی ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے حکومت گراو تحریک کی ٹائمنگ یہی بتاتی ہے کہ یہ مارچ 2019 سے پہلے پہلے تحریک انصاف حکومت کو ہر صورت گھر بھجوانا چاہتے ہیں۔
آئندہ برس مارچ میں سینیٹ کے نصف یعنی 52 ارکان ریٹائرڈ ہو جائیں گے اور یوں نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف سینیٹ انتخابات کے نتیجے میں ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔یاد رہے کہ 104 ارکان پر مشتمل سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات ہر تین سال بعد ہوتے ہیں جب آدھے سینیٹرز اپنی چھ سال کی مدت پوری کرکے اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات جو کہ 2018 کے انتخابات سے محض 4 ماہ پہلے منعقد ہوئے تھے، ان میں برسراقتدار جماعت مسلم لیگ ن نے اکثریت حاصل کی تھی تاہم اب دوبارہ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ مرکز،پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے اراکین کی اکثریت میں ہیں لہذا یہی توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ مارچ 2019 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔
سینیٹ کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ مارچ 2021 میں سینیٹ کی 52 سیٹیں خالی ہوجائیں گے۔ جن میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی 12، 12 سیٹیں جبکہ پنجاب اور سندھ کی گیارہ گیارہ نشستیں شامل ہیں۔ حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات کی چار نشستیں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی دو نشستیں بھی خالی ہو رہی ہیں۔سینیٹ کے موجودہ چند بڑے نام جو کہ مارچ 2021 میں میں ریٹائر ہو رہے ہیں ان میں وفاقی وزییر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز، عثمان خان کاکڑ، محسن عزیز، پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، راجہ ظفر الحق، عائشہ رضا فاروق، سردار یعقوب ناصر، راحیلہ مگسی، کلثوم پروین، شیری رحمان، فاروق ایچ نائیک، رحمان ملک، سلیم مانڈوی والا، بیرسٹر محمد علی سیف اور سینیٹر عبدالغفور حیدری نمایاں ہیں۔
واضح رہے کہ مارچ 2019 میں میں جو 52 سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں ان میں سے سترہ کا تعلق مسلم لیگ نواز، سات کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی جبکہ اتنے ہی سینیٹرز تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے علاوہ پانچ آزاد سینیٹرز اور بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے تین سینٹرز بھی ریٹائرڈ ہو رہے ہیں جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے 2،2 سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ریٹائر ہونے والے 52 سینٹرز میں سے ایک کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی جبکہ ایک کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ سے ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف انصاف کس طرح ایوان بالا میں میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ سینیٹرز کے انتخاب کے لیے متعلقہ صوبوں کی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی کے رکن ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات سنگل ٹرانسفر یبل ووٹ سسٹم کے تحت ہوتے ہیں۔ وو ٹنگ کے دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین فراہم کردہ چار سلپس یا بیلٹ پیپر پر ترجیحی بنیادوں پر چار ناموں کا انتخاب کرتے ہیں۔جہاں تک پنجاب سے منتخب ہونے والے سینٹرز کی بات ہے تو لگتا ہے کہ تحریک انصاف سینیٹ انتخابات میں پنجاب سے گیارہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ جس کے پنجاب اسمبلی میں 10 اراکین ہیں، ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون بھی پنجاب سے تین سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
سندھ اسمبلی کی بات کی جائے تو یہاں اکثریت رکھنے والی حکمران جماعت پیپلزپارٹی 11 میں سے آٹھ نشستیں باآسانی جیت سکتی ہے۔ اپوزیشناتحاد میں شامل تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ مل کر تین نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہےاس لیے امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہاں سے تحریک انصاف 9 سیٹیں جیت جائے گی۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل جمعیت علماء اسلام ف، اے این پی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا الائنس تین نشستیں جیت سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحاد میں شامل تحریک انصاف اٹھ نشست جیتنے کی پوزیشن میں ہیں جس میں سے دو نشستیں ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کے حصے میں آئیں گے۔ عددی اکثریت کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جمیعت علماء اسلام ف بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی ایک سیٹ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ اور آزاد امیدوار بھی ایک نشست جیت سکتا ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات یعنی سابق فاٹا جیسے خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا ہے، کے لئےسینیٹ میں 4 سیٹیں رکھی گئی ہیں۔ممکنہ طور پر سابق فاٹا سے تین سینیٹرز منتخب ہوسکتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حصہ میں یہاں سے ایک نشست آئے گی۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد آباد سے سینیٹ کی دو نشستیں خالی ہو رہی ہیں اور قوی امکان ہے کہ دونوں نشستیں تحریک انصاف کے حصے میں آئیں گی۔
آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 2021 میں ہونے جا رہے سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی آسانی سے 22 نشستیں جیت سکتی ہے جبکہ اس کے اتحادی بھی 12 نشستیں حاصل کر سکتے ہیں۔اگر ایسا ہوگیا تو برسراقتدار تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی سینیٹ میں نمائندگی 57 افراد تک پہنچ جائے گی اور یوں اسے سینیٹ میں سادہ اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سینیٹ میں اقلیت میں ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی اور ستمبر 2020 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ایف اے ٹی ایف سے متعلق اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود متنازعہ قوانین پاس بھی کروالئے لہذا اس کے پاس مارچ 2021 میں سینیٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرنا اپوزیشن نے لئے مزید دو سال ہی نہیں بلکہ آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں بھی ڈراونا خواب ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے اپوزیشن جماعتوں نے مارچ 2021 سے پہلے پہلے تحریک انصاف حکومت گرانے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button