کیا پنجاب حکومت کے خاتمے کا فائدہ نون لیگ کو ہوگا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب اسمبلی توڑنے اور اپنی حکومت ختم کرنے کے فیصلے کو ایک بڑا سیاسی بلنڈر قرار دیا جا رہا ہے جس کا فائدہ ان کی مخالف سیاسی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ نون اٹھا سکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تین مہینے کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن نظر نہیں آتا اور نگران حکومت کی معیاد بڑھنے کی صورت میں عمران خان کو اسمبلی توڑنے کا فائدہ نہیں بلکہ بہت ذیادہ نقصان ہو جائے گا۔
نون لیگی حلقوں کا اب یہ کہنا ہے کہ انہوں نے پنجاب میں روز روز کی بک بک سے تنگ آ کر عمران خان کو ٹریپ کیا اور ان سے پنجاب اسمبلی تڑوائی تاکہ تحریک انصاف اور قاف لیگ کی حکومت سے جان چھڑائی جا سکے۔ اسمبلی کی تحلیل کے بعد اس وقت پنجاب میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے تحادیوں اور امیدواروں کے ساتھ رابطے بڑھا دیے ہیں اور مستقبل کی سیاسی صف بندیوں پر بھی غور شروع کر دیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم حلقوں کا کہنا ہے کہ پرویز الہی حکومت کے خاتمے کے بعد جو بھی نگران حکومت وجود میں آئے گی وہ نیوٹرل ہو گی اور پرویزالٰہی حکومت کی طرح ان کے خلاف انتقامی کاروائیاں نہیں کرے گی۔ ایسی صورت میں نواز لیگ کو اگلے انتخابات کے لیے سازگار ماحول میسر آجائے گا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنی سیاسی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے گی۔
نون لیگی حلقوں کے مطابق مسلم لیگ نواز کی قیادت نے بھرپور الیکشن مہم چلانے کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اسی لیے مریم نواز بھی اسی مہینے ملک واپس آ رہی ہیں۔ اسکے علاوہ سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر وزیراعظم شہباز شریف لاہور میں زیادہ وقت گزار رہے ہیں کیونکہ انھیں وفاق میں معاشی چیلنجز کے ساتھ پنجاب میں بھی ایک بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ لاہور میں وہ اپنی جماعت مسلم لیگ ن کے اجلاسوں کی صدارت کر رہے ہیں جن میں آئندہ کی سیاسی حکمتِ عملی زیرِ غور ہے۔اِسی طرح سابق صدر آصف زرداری بھی لاہور میں ہی موجود ہیں اور پیپلز پارٹی کا سیاسی گیم پلان تیار کرنے کے لیے ملاقاتوں، رابطوں اور پارٹی اجلاسوں میں مصروف ہیں۔
اسی طرح زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ بھی مسلسل سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔ پنجاب کی سیاسی بساط پر ہر کھلاڑی بڑی بازی کی تیاری کررہا ہے لیکن مبصرین کے نزدیک انتخابات سے قبل پرویز الہیٰ کی اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیابی اور پھر اسمبلی کی تحلیل سے مسلم لیگ کو اپنے سیاسی گڑھ میں بڑی سیاسی مات ہوئی جس کا اگلے انتخابات کے انعقاد سے پہلے ازالہ ضروری ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں ہونے والے سیاسی داؤ پیچ میں ن لیگ کو قدرے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی ملک میں عدم موجودگی کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے فوری طور پر مریم نواز کو وطن واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مسلم لیگ نون کی سیاسی پوزیشن بہتر ہونے کا امکان ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کم وبیش آٹھ ماہ قبل مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی بہت زیادہ ڈیمانڈ تھی۔ تب معاشی صورت حال ابتر تھی جس کا ذمہ دار عمران خان عثمان بزدار کو قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن پھر ن لیگ نے عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر حکومت حاصل کر لی اور اپنی سیاست کو داؤ پر لگادیا جس کی وجہ سے ن لیگ نہ صرف دفاعی محاذ پر کھڑی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کو اقتدار سے نہ نکالا جاتا تو وہ آج بھی وزیراعظم ہوتے اور جنرل فیض حمید آرمی چیف ہوتے، لہٰذا نون لیگ بہت ہی مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہوتی۔
تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ سیاسی صورتِ حال کا درست اندازہ نہ لگانے کی وجہ سے مشکل صورتحال کا شکار ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر ن لیگ کے پاس اپنے پورے نمبر ہوتے تو صورتِ حال کچھ اور ہوتی۔ وہ اپنا وزیراعلٰی لے آتے لیکن ایسا نہیں تھا۔ اِن کے پاس نمبرز پورے نہیں تھے۔ ن لیگ سوچ رہی تھی کہ پی ٹی آئی کے لوگ خود ٹوٹ جائیں گے۔ لیکن پانچ کے سوا پی ٹی آئی کے ارکان پارٹی کے ساتھ ہی کھرے رہے اور یوں عمران خان پرویز الٰہی کے ذریعے پنجاب اسمبلی تڑوانے میں کامیاب ہو گئے۔ یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل تھا جس میں تحریک انصاف کے پاس سب سے زیادہ 178 نشستیں تھیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی مسلم لیگ قاف کی 10۔نشسیں ملا کر حکومتی اتحاد کی نشستوں کی مجموعی تعداد 188 تھی۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کےپاس پنجاب اسمبلی میں 168 ارکان تھے۔ اِن کے اتحادی پیپلز پارٹی کے پاس سات نشستیں تھیں۔ ن لیگ کو چار آزاد ارکان اور راہِ حق پارٹی کے ایک رکن کی حمایت بھی حاصل رہی۔اس طرح مجموعی طور پر ن لیگ کو 179 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
مسلم لیگ ن کی قیادت میں ایک حلقے کا خیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں پارٹی قائد نواز شریف پاکستان میں ہوتے اور براہ راست صورتِ حال کی نگرانی کرتے تھے پنجاب کا سیاسی منظرنامہ مختلف ہوتا۔ لیکن تجزیہ کار نصرت جاوید اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی بھی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں ن لیگ کو کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں پہنچا سکتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر بساط پلٹنے کے لیے عددی برتری درکار تھی۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز ملک میں ہوتے بھی تو پنجاب اسمبلی میں اپنے نمبرز کیسے بڑھاتے؟ لیکن اس بارے میں سلمان غنی قدرے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں نواز شریف کی واپسی کے علاوہ ن لیگ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اُن کا سیاسی کیس تھا اور اُن کی مقبولیت تھی۔ ان کے بقول، حقیقی قائد مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتا اور وہ اپنی سیاست کو داؤ پر نہیں لگاتا۔ ذرائع ابلاغ میں مریم نواز کی رواں ماہ واپسی کی خبریں گردش میں ہیں۔ تاہم اُن کی جانب سے ابھی تک پاکستان واپس آنے کی کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ان کی ممکنہ وطن واپسی کو پنجاب میں انتخابی میدان کے لیے ن لیگ کی تیاری کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے سیاسی اکھاڑا لگے گا پھر لوگ اپنے اپنے اُمیدوار میدان میں اتاریں گے۔ انتخابی مہم ہو گی تو اُس کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے کس سیاسی لیڈر کو کتنی مقبولیت حاصل ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات میں اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو تھوڑا عرصہ کے لیے ٹالنے میں کامیاب ہو گئی ہے جس کے باعث بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اصافہ نہیں ہوا۔ اِسی طرح معیشت کچھ اور بہتر ہو گئی تو اتحادی حکومت پنجاب اور پختونخوا میں انتخابات ہونے دے گی۔ بصورتِ دیگر وفاقی حکومت کوشش کرے گی کہ انتخابات کچھ تاخیر سے کرائے جائیں۔ تاہم تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول انہیں پاکستان میں دو انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبوں اور باقی ملک میں الگ الگ انتخابات نہیں ہو سکتے۔ پورے ملک میں وفاق اور صوبوں کے اتنخابات ایک ساتھ ہی ہوں گے۔ اس کے لیے بہتر ہو گا کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر بات کر لیں۔ دو انتخابات کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ رواں برس 30 اپریل تک ملک میں مردم شماری ہونے والی ہے۔ اِسی طرح پنجاب میں پانچ نئے اضلاع کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن کی حلقہ بندیاں ہونے والی ہیں۔ اِسی طرح دیگر وجوہ کی بنا پر تکنیکی اعتبار سے بھی یہ ممکن نظر نہیں آ رہا۔
سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ جب انتخابات ہوں گے تو نئی سیاسی صف بندیاں ضرور ہوں گی۔ جس کے لیے سیاستدانوں نے ایک دوسرے سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ لیکن صورتِ حال اسی وقت واضح ہوگی جب انتخابات کا بگل بجے گا۔