کیا حکومت صحافیوں کو لاپتہ کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہے؟


وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق لاپتہ صحافی مدثر نارو کے اہل خانہ سے ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ حیران کن تو ہے لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ موجودہ حکومت بھی صحافیوں کو لاپتہ کرنے والے خفیہ عناصر کے ساتھ کھڑی ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی حکومت کو 13 دسمبر تک لاپتہ صحافی مدثر نارو کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ ہدایت کی تھی کہ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ لاپتہ صحافی کے خاندان سے مل کر اس کی داد رسی کریں۔
تاہم 7 دسمبر کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے لاپتا صحافی مدثر نارو کی فیملی سے ملاقات کرانے کیلئے عدالتِ عالیہ کے حکم کیخلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو آئین میں دئیے گئے اختیارات سے متصادم قرار دے دیا ہے۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ معاملات کو متعلقہ فورمز پر بھیجا جانا چاہیے لیکن کابینہ کو بھیجے جانے والے عدالتی فیصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا تازہ حکم بھی آئین کیخلاف ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی کابینہ نے اس معاملے پر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت لاپتا افراد کے معاملے پر انتہائی سنجیدہ ہے اور متعلقہ ادارے ایسے معاملات کو دیکھنے کیلئے موجود ہیں۔ وفاقی کابینہ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کیخلاف اپیل دائر کر کے صورتحال سے آگاہ کیا جائے۔
دوسری جانب صحافتی حلقوں نے وزیراعظم کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت ہو گیا کہ انکی حکومت صحافیوں کے ساتھ نہیں بلکہ انکو لاپتہ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون اور آئین کے عین مطابق ہے چونکہ شہریوں اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا حکومت وقت کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مدثر نارو کے خاندان سے ملاقات سے انکار کر کے وزیر اعظم نے نہ صرف اپنی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری سے پہلو تہی برتنے کی کوشش کی ہے بلکہ یہ تاثر بھی دیا ہے کہ وہ صحافیوں کو غائب کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے بار بار کی یقین دہانیوں اور عدالتی احکامات کے باوجود تین برس پہلے پراسرار طور پر لاپتہ ہو جانے والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ صحافی اور بلاگر مدثر نارو کا کوئی سراغ نہیں مل پارہا لہذا ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ وہ طاقتور خفیہ اداروں کی تحویل میں ہے۔
مدثر نارو اگست 2018 میں اپنی اہلیہ صدف اور تب چھ ماہ کے بیٹے سچل کے ہمراہ ملک کے شمالی علاقوں کی سیر کی غرض سے گئے تھے لیکن اسی دوران پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے۔ ان کے خاندان نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مدثر کو خفیہ اداروں نے اٹھا لیا ہے۔ مدثر نارو کی گمشدگی کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی پٹیشن کے مطابق 2018 کے دھاندکی زدہ انتخابات کے چند روز بعد ان کو فون پر وارننگ دی گئی کہ وہ الیکشن میں ہونے والی بدعنوانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ گمشدگی سے چند ماہ قبل ان کی نوکری بھی چلی گئی تھی اور اس کی کوئی واضح وجہ بھی نہیں بتائی گئی تھی۔ پھر مئی 2021 میں ان کی نوجوان اہلیہ صدف کی بھی وفات ہو گئی۔ تب اسلام آباد ہائی کورٹ میں مدثر نارو کی بازیابی کے حوالے سے سماعت کا سلسلہ جاری تھا اور ان کی اہلیہ اسلام آباد کی سڑکوں پر جلوس نکالنے میں مصروف تھیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیا PPP پنجاب میں ن لیگ کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے؟
مدثر نارو کا خاندان پچھلے تین برس سے عدالتوں اور حکومتی ایوانوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے لیکن ان کے بیٹے کا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مدثر کی بازیابی کے لئے دائر کردہ درخواست کی کئی سماعتیں ہوچکی ہیں لیکن بار بار کے عدالتی احکامات کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا۔ مدثر کی فیملی کی جانب سے دائر درخواست میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے جبکہ وزارت دفاع کا موقف ہے کہ مدثر نارو ان کی تحویل میں نہیں۔
یکم دسمبر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے مدثر نارو کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہ تھا کہ ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری، اور یہ سب انہی کا کیا کرایا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو یاد دلایا تھا کہ عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے لاپتہ افراد کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں ان کی بازیابی کے لیے احتجاج بھی کرتے رہے ہیں، لہذا وہ مدثر نارو کے خاندان سے ملیں اور ان کی داد رسی کریں۔ اس موقع پر شیریں مزاری نے کہا تھا کہ مدثر نارو کی فیملی کے ساتھ ملنے میں وزیراعظم کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم 7 دسمبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عمران خان نے یہ عجیب و غریب فیصلہ کیا کہ وہ مدثر کے خاندان سے نہیں ملیں گے اور عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

Back to top button