کیا شہبازشریف قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے؟
اختر مینگل کی حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کے بعد وزیراعظم شہباز شریف مشکلات کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں، خصوصا ًجب فواد چوہدری نے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں کیونکہ ان کے اتحادیوں کی تعداد 168 رہ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد نے دعوی ٰکیا ہے کہ شہباز قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے ہیں لہٰذا ان کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا لازمی ہو چکا ہے۔ ایسے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا صدر علوی نئے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہہ سکتے ہیں جب کہ انہوں نے حال ہی میں اپنی اکثریت ثابت کی ہے۔
یاد رہے کہ شہباز شریف 174 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے تھے جبکہ میجک نمبر 172 تھا۔ لیکن اب قومی اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی اور ایک نشست رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی ناراض ہو چکی ہیں اور دونوں نے وفاقی کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح محسن داوڑ اور علی وزیر کی جانب سے بھی حکومت سے ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اگلے روز ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی اقبال محمد علی انتقال کر گئے ہیں۔ یوں شہباز شریف کے حمایتی اراکین کی تعداد 166 پر آگئی ہے لہٰذا انہیں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے 6 ووٹوں کی کمی کا سامنا ہے۔
لیکن دوسری جانب حکومتی ذرائع اس حساب کتاب کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی ناراضی جلد دور ہو جائے گی۔ انکا کہنا ہے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر بھی حکومت کے ساتھ ہیں اور کہیں نہیں جا رہے۔ اسکے علاوہ حکومتی ذرائع یاد دلاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے دو درجن اراکین اسمبلی بھی حکومتی اتحاد کے حمایتی ہیں لہٰذا اگر کوئی کمی بیشی ہو بھی جائے تو ان کے ووٹ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، علی وزیر اور محسن داوڑ آصف زرداری کے اصرار پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ بنے تھے۔ اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو بھی زرداری نے ہی ساتھ ملایا تھا، لیکن اب خود پیپلز پارٹی کے نون لیگ سے تحفظات پیدا ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو بھی وفاقی کابینہ میں نمائندگی دی گئی تھی لیکن باقی جماعتوں کے اراکین کی طرح بی این پی کے اراکین نے حلف نہیں اٹھایا۔ قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے اراکین کی تعداد چار اور سینیٹ میں دو ہے جن میں سے دو کو کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بتایا کہ پارٹی کے دو اراکین میں سے ایک کو وفاقی وزیر جبکہ دوسرے کو وزیر مملکت کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن پارٹی کے اراکین نے نہ صرف حلف نہیں اٹھایا بلکہ کابینہ کے اراکین کی تقریب حلف برداری میں بھی شریک نہیں ہوئے ۔
اختر مینگل نے بتایا کہ انکے حلف نہ اٹھانے کی وجہ بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک غریب ڈرائیور کے قتل کا واقعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے ضلع چاغی میں ان گاڑیوں کو روکا جن کے ڈرائیور اپنے بچوں اور خاندان کے افراد کا پیٹ پالنے کے لیے افغانستان سے اشیا لاتے اور لے جاتے ہیں۔ ان ڈرائیوروں میں سے ایک کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا جبکہ دیگر ڈرائیوروں سے گاڑیاں تحویل میں لے کر ان کو ناکارہ بنانے کے لیے ان کے انجنوں میں ریت ڈال دی گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چاغی میں اس شدید گرمی اور روزے کی حالت میں ڈرائیوروں کو کہا گیا کہ وہ جدھر جانا چاہتے ہیں چلے جائیں۔ اس ریگستان میں لوگ پیدل نکلے جن میں سے بعض کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ہلاک ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیور کی ہلاکت کے خلاف اور اپنے دیگر مطالبات کی حمایت میں لوگوں نے نوکنڈی اور چاغی میں احتجاج کیا تو ان پر گولیاں چلائی گئیں جن میں سے متعدد زخمی ہوئے اور ان میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس حالت میں کہ لوگ لہو لہان ہیں، ہم لوگ کس منہ سے وزارت کا حلف اٹھاتے۔ اسلئے ہم نے مشاورت کے بعد حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔‘ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ‘وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت ان واقعات کے حوالے سے عدالتی کمیشن بنائے گی۔’ انھوں نے کہا کہ ‘میں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ ہم نے تحریک انصاف کے ساتھ بھی حکومت سازی میں ساتھ دیا۔ وہ بھی ہمیں وزارت دے رہے تھے لیکن ہم نے وزارتیں نہیں لیں کیونکہ اس حکومت میں بھی بلوچستان میں نسل کشی نہیں رک سکی اور یہ اب بھی جاری ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت میں ان کے لوگ کم از کم تین ساڑھے تین سال تک وزیر رہ سکتے تھے لیکن بلوچستان میں مبینہ نسل کشی نہ رکنے کی وجہ سے وہ اس حکومت کا حصہ نہیں بنے۔ ’اب معلوم نہیں کہ اس حکومت کا عرصہ سال ہو یا نہ ہو تو ہماری پارٹی کے لوگ ایسے حالات میں کس طرح وزیر بن سکتے ہیں۔‘ سردار اختر مینگل نے کہا کہ انھوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ کمیشن بنایا جائے اور ذمہ داروں کا تعین ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو سزا بھی ہو تو ’ہم محسوس کرسکیں گے کہ سابق اور موجودہ حکومت میں کوئی فرق ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ’ہمیں کہا گیا ہے کہ کمیشن بنایا جائے گا اور جو لوگ ذمہ دار پائے جائیں گے ان کو سزا دی جائے گی لیکن فی الحال حکومت کی مصروفیات زیادہ ہیں۔‘