کیا شہباز شریف مفاہمتی ڈیل کے تحت باہر آئے ہیں ؟

پیپلزپارٹی اور اے این پی کی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سے باضابطہ علیحدگی اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی 14 اپریل کو ضمانت پر رہائی کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ نواز لیگ کا مفاہمتی دھڑا نہ صرف پارٹی پر گرفت مضبوط کرے گا بلکہ پی ڈی ایم میں شامل رہ کر ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش بھی کرے گا۔

واضح رہے کہ یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کے ساتھ ہی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری رومانس اپنی اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ ن لیگ اور جے یو آئی ف کی جانب سے سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کرنے سے انکار کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو قائد حزبِ اختلاف ماننے سے انکار کردیا تھا۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنا قائد حزب اختلاف لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے مشاورت شروع کر رکھی ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ رہائی کے بعد شہباز شریف کا بڑا ٹاسک پارٹی پر گرفت مضبوط بنانا اور اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بچانا ہوگا۔ اس کے بعد پنجاب اور مرکز میں جگہ بنانے کے لئے انہیں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے مقابلہ کرنا ہوگا ورنہ شریف فیملی کے لئے اقتدار محض خواب ہی رہے گا۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ حالیہ سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ ڈیل کی کوششوں کا الزام لگانے والی مسلم لیگ نواز اب خود اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ وہ بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں نواز شریف اور مریم نواز کا مزاحمتی بیانیہ ہی آگے بڑھائے یا شہباز شریف اور حمزہ شہباز والا مفاہمتی بیانیہ اپنا لے جیسا کہ آصف زرداری نے کیا ہے۔ ن لیگ کا ایک دھڑا یہ سوچ رکھتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا مزاحمتی بیانیہ چونکہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ شہباز شریف اپنا مفاہمتی بیانیہ دوبارہ سے آگے بڑھانا شروع کر دیں، اس سے پہلے کہ پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ن لیگ کی سیاست کا دھڑن تختہ کردے۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اس بات کا قوی امکان ہے کہ ملک کی روزبروز بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور شہباز شریف کی رہائی کے بعد نون لیگ گیم پلان میں ردو بدل کرے کیونکہ وہ کھیل سے باہر رہنے کی متحمل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اب جبکہ حمزہ شہباز کے بعد ان کے والد شہباز شریف ضمانت پر رہا ہو کر باہر آ چکے ہیں، یقیناً وہ پارلیمنٹ کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہوں گے کیونکہ وہ روز اول سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست کے مخالف رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نون لیگ کا ایک بڑا دھڑا جو پارلیمنٹ چھوڑنے کا مخالف ہے، وہ بھی شہباز شریف کا ساتھ دینے کا خواہش مند ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حمزہ کے بعد شہباز شریف کی رہائی سے پاکستانی سیاست میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں مفاہمتی بیانیے کے سرخیل سمجھے جانے والے شہباز شریف اور انکے بیٹے حمزہ شہباز کی رہائی سے اب ممکنہ طور پر لیگی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ میں دوریاں بتدریج کم ہوں گی۔ تاہم دوسری طرف مسلم لیگ نواز میں مزاحمتی اور مفاہمتی بیانیے لیکر چلنے والوں کی باہمی کشمکش عروج میں تیزی آنے کا بھی خدشہ ہے۔ ذرائع کے مطابق مفاہمتی بیانیہ لے کر چلنے والوں کا موقف ہے کہ شہباز شریف کی نیب کے ہاتھوں دوبارہ گرفتاری کی بنیادی وجہ نواز شریف اور مریم نواز کا سخت ترین فوجی قیادت مخالف بیانیہ تھا جس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے بلکہ اس کا الٹا نقصان ہوا ہے اور نواز لیگ کی سیاسی آپشنز مزید محدود ہو گئی ہیں جسکا فائدہ اب پیپلزپارٹی اٹھا رہی ہے۔ مفاہمتی دھڑے کا یہ بھی گلہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے فوجی قیادت مخالف بیانیے کی ہی وجہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوگئی چونکہ دونوں کا مفاد مشترک ہو گیا تھا۔ تاہم دوسری جانب نواز لیگ میں مزاحمتی دھڑے کا موقف یہ ہے کہ دراصل شہباز شریف کی گرفتاری ان کے مفاہمتی بیانیے کی ناکامی تھی اور انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ انکا سیاسی مستقبل اب مزاحمتی بیانیے سے وابستہ ہے۔ ن لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ مزاحمتی اور مفاہمتی دراصل نون لیگ کے دو چہرے ہیں۔ مسلم لیگ نون میں نواز شریف کا کہا حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ حالات کے مطابق مسلم لیگ نون کبھی اپنا مزاحمتی چہرہ سامنے لے آتی ہے تو کبھی مفاہمتی۔
اس حوالے سے ہمیشہ بحث ہوتی رہی ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ نون متحد ہے اور اس میں کوئی بڑی تقسیم نہیں لیکن شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیسے اہم راہنما فوجی اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراو کی باتیں زبان پر نہیں لاتے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی رہائی سے صرف ن لیگ کی اندرونی سیاست یا اپوزیشن اتحاد کی سیاست میں ہی بدلائو نہیں آئے گا بلکہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے پریشان کن صورتحال پیدا ہو سکتی ہے چونکہ شہباز شریف ہمیشہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کا بیانیہ لے کر چلنے کے قائل رہے ہیں اور اپنی رہائی کی صورت میں وہ نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف کو ایک مرتبہ نیب کی حراست سے رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرنے کا مقصد اس پل کو توڑنا تھا جو شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور پاکستانی فوجی قیادت کے درمیان قائم کرنا چاہتے تھے۔ یاد رہے کہ اس مفاہمتی پل کی تعمیر میں خواجہ آصف بھی متحرک کردار ادا کر رہے تھے لہذا وزیراعظم عمران خان نے خطرہ بھانپتے ہوئے پہلے شہباز شریف کو اور پھر خواجہ آصف کو نیب کے ذریعے اندر کروا دیا تھا، اب خواجہ آصف کی رہائی کے بھی امکانات ہیں۔واضح رہے کہ چند ماہ قبل اسٹیبلشمینٹ کی جانب سے ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی کوششوں کا آغاز ہوا تھا جس کے بعد سینیٹر محمد علی درانی کو میدان میں اتارا گیا تھا۔ درانی نے شہباز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کی اور اسٹیبلشمنٹ کا کوئی خصوصی پیغام انہیں پہنچایا۔ درانی اس سے پہلے خواجہ آصف سے بھی ایک خفیہ ملاقات کر چکے تھے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے صورتحال کوتے ہوئے خواجہ آصف کو بھی اندر کروا دیا گیا جس کے بعد محمد علی درانی کا مشن ناکام ہوگیا۔ لیکن مفاہمت پر یقین رکھنے والی لیگی قیادت کی اسیری کے بعد مسلم لیگ نون کی جانب سے جارحانہ انداز سیاست اختیار کیا گیا اور یہ دلیل دی گئی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کرنے والوں کا مقدر مقدمات اور جیلیں ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد مسلم لیگ نون اب ڈیل کی کوششوں کے ساتھ ساتھ خود کو حقیقی اپوزیشن ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔ دراصل پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے نون لیگ کے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ لہذا یہ امکان ہے کہ اب نواز لیگ شہباز شریف کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کو اپنا کر مستقبل کی سیاست میں قدم جمانے کی کوشش کرے گی۔ لیگی ذرائع کا کہناہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والوں دنوں میں مریم نواز بیرون ملک چلی جائیں اور پارٹی کی کمان اپنے چچا اور حمزہ شہباز کے سپرد کر دیں خصوصاً جب ان کا مزاحمتی بیانیہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے تاہم مریم اس مفروضے کو بارہا رد کرچکی ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت ہر حال میں پنجاب میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو نے پچھلے دنوں حمزہ شہباز سے بزدار حکومت کی تبدیلی کے آپشن پر بات کی تھی۔ بعد میں وہ چوہدری برادران سے بھی ملے تھے۔ مگر نواز شریف نے پنجاب حکومت کی تبدیلی کی کوششوں کی حمایت کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا کیونکہ انہیں آصف زرداری کی نیت پر شک تھا۔ تاہم بلاول بھٹو نے لاہور میں حمزہ شہباز سے ملاقات کے دوران یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ وہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیدر ہونے کی وجہ سے خود بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن سکتے ہیں۔ تاہم نواز شریف اور مریم نواز نے اس تجویز کو رد کر دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button