بجلی بل کی مد میں حکومت عوام کو کیسے نچوڑتی ہے؟

پاکستان میں یوٹیلیٹی بلز پر عائد ہونے والے بے جا حکومتی ٹیکسز نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یوں تو حکومت ہر شے پرعوام سے ٹیکس کی مد میں بھاری رقم بٹورتی ہے لیکن پھر بھی کپتان کا یہی الزام ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے، یقینا ایسا کہنا مہنگائی کی ماری عوام سے زیادتی کے مترادف ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے بلوں میں وصول کیے جانے والے مختلف ٹیکسز کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک عام پاکستانی سے حکومت بجلی بل میں بجلی کی قیمت کے علاوہ بھاری رقم مختلف ٹیکسز اور سرچارج کے نام پر وصول کرتی ہے۔
پاکستان میں جتنی بھی بجلی ہم استعمال کرتے ہیں اس کے دو قسم کے چارجزہوتے ہیں ایک ہیں گورنمنٹ چارجز اور دوسرے اس بجلی ساز کمپنی کے چاجز جو کے صارفین تک بجلی پہنچا رہی ہے یعنی آئسکو، فیسکو، لیسکو، پیسکو، کے-الیکٹرک وغیرہ۔ صارف کو بھیجے جانیوالے بجلی کے بل میں چارجز کا جو سیکشن ہوتا ہے اس کوسمجھنے سےپہلےہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کے یہ بجلی ہمارے گھروں تک کیسے پہنچتی ہے۔
بجلی صارفین تک پہنچنے کے مکمل سفر کی چار منزلیں ہوتی ہیں، یعنی جنریشن، ٹرانسمیشن، ڈسٹریبیوشن اور یوٹیلائیزیشن۔
سب سے پہلا مرحلے میں جنریشن آتی ہے یعنی بجلی پیدا کیسے ہوتی ہے۔ اس میں مختلف طریقوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار ممکن بنائی جاتی ہے۔ جن میں پاور ہائیڈل پاور پلانٹس بھی ہو سکتے ہیں جہاں پانی سے بجلی بنتی ہے۔ تھرمل پلانٹس بھی ہو سکتے ہیں جہاں تیل یا کوئلے سے بجلی بنتی ہے یا سولر پلانٹس بھی ہو سکتے ہیں جہاں دھوپ سے بجلی بنتی ہے اور ونڈ پلانٹس بھی ہو سکتے ہیں جہاں ہوا سے بجلی بنتی ہے۔
اس کے بعد ٹرانسمیشن کا مرحلہ آتا ہے یعنی بجلی کو ملک کے دوردرازعلاقوں میں پہنچانے کے لیے ٹرانسمیشن لائنز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور تیسرے مرحلے میں جس علاقے میں بجلی کو استعمال کرنا ہو اس شہر کی سپلائی کمپنی بجلی کو صارفین تک پہنچاتی ہے۔ اس کےبعد انڈسٹریل یا ڈومیسٹک گھریلو صارفین اس بجلی کو استعمال کرتے ہیں۔ تاہم صارف جب بجلی استعمال کرتا ہے تو اس کے استعمال کردہ یونٹش کے حساب سے اسکی قیمت بنتی ہے یعنی کہ اس نے کتنی بجلی استعمال کی ہے اسے کے مطابق اس سے چارجز وصول کئے جاتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے ہر سپلائی کمپنی نے اپنے یونٹس کی ایک مخصوص ریٹ لسٹ بنائی ہوتی ہے جس کو الیکڑیکل زبان میں ٹیرف کہتے ہیں۔ مثال کے طور پرایک بل کے اندر ٹوٹل 115 یونٹس استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں سے پہلے 100 یونٹ کی قیمت 5 روپے 79 پیسے رکھی گئی اور جو اس کے اوپر 15 یونٹ ہیں اس کی قیمت 8 روپے 11 پیسے لگائی گئی ۔ صارف نے بجلی کےجو 115 یونٹس استعمال کیے اس کی قیمت 700روپے بنی۔ اس قیمت پر گورنمنٹ کے دو قسم کے ٹیکسز ہوتے ہیں سب سے پہلا ٹیکس (E.D) یعنی الیکٹرک سٹی ٹیکس کہلاتا ہے جو ٹوٹل استعمال شدہ بجلی کا 1.5 فیصد گورنمنٹ کوادا کرنا ہوتا ہے۔یہ چیز بجلی بل کے اوپر واضح کی جاتی ہے۔ اس کے بعد 35روپے ٹی وی کا ٹیکس آتا ہے جواب سو روپے کر دیا گیا ہے۔
تیسرے نمبر پرجنرل سیل ٹیکس یعنی GST آتا ہے جو 17 فیصد لاگو ہوتا ہے یہ تو وہ چارجز ہیں جو کہ صارفین نے ادا کرنے ہی ہیں۔ ان تمام ٹیکسز سے بڑھ کر عذاب وہ ٹیکس ہیں جو سب سے خطرناک ہیں ان میں سب سے پہلےفیول پرائس ایڈجسمنٹ یعنی FPA کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی جس فیول یا ایندھن سے بجلی بن رہی ہے آپ اس کے بننے کا بھی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ یعنی کے اگر آپ ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ سے بجلی لے رہے ہیں تو آپ کا فیول پانی ہو گا۔ اگر آپ سولر سے بجلی لے رہے ہیں تو آپ کا فیول دھوپ ہو گا۔ اگر آپ تیل سے بجلی حاصل کر رہے ہیں تو آپ کا فیول تیل ہو گا اور اگر آپ کوئلے سے بجلی پا رہے ہیں تو اسی طرح آپ کا فیول کوئلہ ہو گا۔ جتنا سستا ایندھن ہو گا اتنی ہی سستی بجلی بنے گی جتنا ایندھن مہنگا ہو گا اتنی ہی بجلی مہنگی ہو گی۔
پاکستان میں ماضی کے حکمرانوں نے بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قدرتی ذرائع سے بجلی بنانے کے بجائے کچھ پرائیویٹ کمپنیاں بنائیں اور یہ کام انہیں سونپ دیا کہ وہ بجلی بنائیں اور حکومت کو فروخت کریں جس کے بدلے حکومت ان کو معاوضہ دے گی ان پرائیویٹ کمپنی کو IPPs یا Independent Power Producers کہتے ہیں۔
یہ پاکستانی IPPs کمپنیز دنیا کہ مہنگے ترین آئٹم یعنی کروڈ آئل سے بجلی بناتی ہیں۔ یہ وہ تیل ہے جو زمین سے نکلتا ہے۔ پاکستانی گورنمنٹ ان کو تیل دیتی ہے جس سے یہ بجلی بنا کر گورنمنٹ کو فروخت کرتی ہے۔ چنانچہ جب دنیا میں آئل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو بجلی بنانے کی قیمتوں میں بھی اضافہ یقینی ہوجاتا ہے۔
پوری دنیا میں اب گرین انرجی یا نیچرل ریسورسز سے بجلی بنائی جا رہی ہے جو سستے ترین انرجی کے ذخائر ہیں ۔ قدرت نے پاکستان کو بھی بیش بہا گرین انرجی سے نوازا ہے سارا سال پاکستان میں دھوپ لگتی ہے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں پانی کے وسیع ذخائر ہیں جہاں پر ڈیم بن سکتے ہیں سندھ اور بلوچستان میں سارا سال ہوائیں چلتی ہیں جن سے ہم ونڈ انرجی کے ذریعے بجلی بنا سکتے ہیں لیکن یہاں بجلی بنانی ہے تو سب سے مہنگے ذریعے کروڈ آئل سے اور وہ بھی پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے ۔
جن لوگوں نے اپنے فائدے کے لیے پاکستان کو ان IPPs کے عذاب میں ڈالا ہے ان کو آج نہیں تو کل ورنہ آخرت میں اس چیز کا جواب دینا پڑے گا۔ اس فیول پرائس ٹیکس کے اوپر مزید الگ سے GST on FPA لگائی جاتی ہے اس کے اوپر اس کی اپنی الیکٹریکسٹی ڈیوٹی ED on FPA ہے لگائی جاتی ہے. جب تک عوام کی ان IPPS کمپنی سے جان نہیں چھوٹے گی تب تک فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ نامی عذاب مسلط رہے گا۔ پالیسی میکرز کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سستے بجلی بنانے والے پاور پلانٹس جیسے ہائیڈرو پاور پلانٹس ، ونڈ پاور پلانٹس، سولر پاور پلانٹس سے بجلی بنائی جائے تا کہ بجلی بنانے کی قیمت میں کمی آ سکے۔
اسی طرح نیلم جہلم سرچارج کے نام سے بھی ایک ٹیکس بجلی کے بل میں لگا ہوتا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاورپلانٹس پاکستان کا وہ واحد پراجیکٹ ہے جو ایک چلتے دریا پر لگایا گیا ہے۔ اس کے لیے ڈیم بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس چلتے ہوئے دریا کے اوپر ہی ایک ٹربائن لگا کر اس کے پریشر سے بجلی بناتے ہیں۔ نیلم جہلم پراجیکٹ آزاد کشمیر میں مظفرآباد پر دریا کے اوپر لگایا گیا تھا اس کی بجلی بنانے کی صلاحیت 969 میگاواٹ ہے۔ تاہم نیلم جہلم کی مد میں بھی پاکستانی جتنی مہینے بھر بجلی استعمال کرتے ہیں اس کا 1% ٹیکس انہیں دینا پڑتا ہے تاکہ یہ پاور پلانٹ مکمل ہو سکے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اپریل 2018 میں اس کا افتتاح ہو چکا ہے اور 14 اگست کو یہ باقاعدہ کام کرنے کے لیے استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے مگر پھر بھی ابھی تک اس کو بنانے کے لیے نیلم سر چارج ٹیکس لگ کے آ رہا ہے ابھی تک اس کے پیسے صارفین سے لیے جا رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی پالیسی میکرز بجلی ساز کمپنیوں کو نوازنے کی بجائے بروقت اور مناسب فیصلے کرتے ہوئے صارفین کو ریلیف فراہم کریں تاکہ آئے روز گرنے والے بجلی بم سے عوام محفوظ ہو سکے اور ایک بجلی کے بل میں کئی بھاری ٹیکسوں کو بھی کم کیا جا سکے۔