کیا عمران خان کی اصل قید اب شروع ہو گی؟

ماضی میں نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو پابند سلاسل کرنے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اب الیکشن سے قبل بانی پی ٹی آئی کو سزا سنا کر جہاں ان پر عملی سیاست کے دروازے بند کر دئیے ہیں وہیں 14 سال کی قید با مشقت کی سزا کے بعد عمران خان کو جیل میں حاصل سہولیات پر بھی بین ثبت کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کو جیل میں حاصل عیاشی پروگرام کے خاتمے کے بعد ہی سابق وزیر اعظم کو پتا چلے گا کہ جیل اور قید کسے کہتے ہیں۔
خیال رہے کہ تو شہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی بانی عمران خان کو شریک حیات بشری بی بی سمیت سزاسنائی گئی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بارکسی ایک مقدمہ میں ملک کے سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو ایک ساتھ سزا سنائی گئی ہے ۔ قانونی ماہرین کے مطابق احتساب عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کے دوران عمران خان کو سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے انھیں اے کلاس اور بشری بی بی کو بی کلاس ملنے کا امکان ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو پھر بھی مشقتی بننا پڑے گا۔ واضح رہے کہ سائفر کیس میں عمران خان اور مخدوم شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید با مشقت کی سزاسنائی گئی ہے۔ اس ضمن میں جیل ذرائع کے مطابق قواعد وضوابط کے تحت عمران خان سے، ان کو اب تک دستیاب سہولتیں، واپس لی جاسکتی ہیں۔ جن میں گھر سے کھانا منگوانا بھی شامل ہے۔ جیل مینوئل کے تحت قید با مشقت کے قیدیوں سے جیل میں قید یوں کیلئے کھانا پکانا، برتن دھونا، ٹو پیاں سینا، کھیتی باڑی کرنا اور قالین بانی جیسے دیگر کام کروائے جاتے ہیں۔ ان کاموں کے ساتھ دینی ودنیاوی تعلیم دینا یا طبی شعبے میں معاونت کرنا بھی مشقت کے زمرے میں آتا ہے۔ تا ہم قیدی سے مشقت کروانے یا نہ کرانے کے بابت کلی اختیارات جیل کے سر براہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان اور سابق وزیر خارجہ کو تو اے کلاس ہی ملے گی ۔ لیکن بشری بی کی حیثیت کا تعین ہونا باقی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں پہلے روز ہی انھیں بی کلاس جیسی سہولتیں دی گئی ہیں ۔ لیکن اے کلاس میں اب تک سب سے زیادہ اور بہتر سہولتیں بانی پی ٹی آئی ہی کو حاصل ہیں۔ ان میں ایکسر سائز سائیکل قابل ذکر ہے۔ جبکہ خوراک میں دیسی گھی اور زیتون کے تیل میں تیار دیسی مرغ اور بکرے کے گوشت کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی طبی دیکھ بھال کیلئے پانچ ڈاکٹر بھی دستیاب رہتے تھے۔
جیل میں مشقت لیے جانے اور اس کے عوض سرکار کی جانب سے طے شدہ معاوضہ وصول کرنے کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی قانون کے تحت سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کو تو اسے کلاس ملے گی۔ لیکن سابق وزیر اعظم کی اہلیہ اس کی حقدار نہیں۔ انہیں عام قیدیوں کی طرح رہنا ہوگا۔ فرنگی دور میں بنائے گئے قانون کے برعکس انہیں ممکنہ طور پر ‘بی’ کلاس دی جاسکتی ہے۔ لیکن ان قیدیوں سے مشقت لینے یانہ لینے کا فیصلہ کرنا کلی طور پر سپر نٹنڈنٹ جیل کی مرضی پر منخصر ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ ان سے مشقت لی جائے گی ۔ حالانکہ بانی پی ٹی آئی کی وزارت عظمی میں منجھے ہوئے پارلیمنٹرین اور قومی اسمبلی کے رکن سابق وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان کے ساتھ جبیل میں اس قدر گھٹیا سلوک کیا گیا کہ زمین پر لٹایا گیا اور ان کے ارد گرد چینی بکھیر کر کیڑے مکوڑے چھوڑے گئے ۔ جبکہ مریم نواز کی اسیری کے دوران وہاں کیمرے تک لگا کر ان کی نگرانی کی گئی۔ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ قانونی ماہرین کے مطابق عام طور پر سپرنٹنڈنٹ جیل اے یا بی کلاس کےقیدیوں سےمشقت نہیں لیتا۔ لیکن اگر وہ اے کلاس یا بی کلاس کے قیدی سے بھی مشقت لینا چاہے تو قیدی انکار ہر گز نہیں کر سکتا۔
خیال رہے کہ قید بامشقت کی سزا کے دوران قیدی سے جیل میں کسی بھی قسم کا محنت والا کام لیا جاتا ہے تاہم ماہرین قانون کے مطابق قید بامشقت کے بھی تین درجے ہوتے ہیں جس کے مطابق قیدیوں کو کام دیا جاتا یا ان سے لیا جاتا ہے۔اے کلاس میں وزیراعظم، مشہور سیاسی یا کوئی اہم شخصیات کو شامل کیا جاتا ہے جنہیں عام کام نہیں دیا جاتا۔اے کلاس میں شامل قیدیوں کو ان کے سیل میں کولر، فریج اور ٹی وی سمیت دیگر سہولیات دی جاتی ہیں اور ان قیدیوں کو 15 دن بعد گھر سے کھانا منگوانے کی بھی اجازت مل جاتی ہے۔اے کلاس کے قیدیوں کو 2 مشقتی بھی دیے جاتے ہیں جو ان کے کاموں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
اس کے بعد اعلیٰ تعلیم یافتہ یا پھر ایک اندازے کے مطابق 6 لاکھ روپے سے زیادہ ٹیکس دینے والے قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے۔ایسے قیدی کو اگر قید بامشقت کی سزا ملی ہو تو اسے مشقتی نہیں دیے جاتے اور اسے اپنے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں جس کو با مشقت قید کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں عام قیدیوں کو سی کلاس میں شامل کیا جاتا ہے۔ بامشقت سزا پانے والے قیدی کو اپنا کام خود کرنا پڑتا ہے جس میں کھانا پکانا، کپڑے دھونا، صفائی، نگرانی اور دیگر کام شامل ہیں جس کی انہیں اجرت بھی ملتی ہے۔عام قیدیوں سے جیل کے روزمرہ کے امور سمیت مشقت والے کام لیے جاسکتے ہیں جس میں صفائی ستھرائی وغیرہ بھی شامل ہے۔قید بامشقت کے دوران مجرم کی شخصیت یا اس کا پیشہ بھی دیکھ کر اسے کام دیے جاتے ہیں۔تعلیم یافتہ مجرم کو قید کے دوران دیگر قیدیوں کو تعلیم دینے کا کام بھی دیا جاسکتا ہے