کیا مریم نواز نے نون لیگ کے سوئے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے؟

لاہور میں 11 اگست کے روز مریم نواز کی نیب دفتر میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہونے والے تصادم اور اس کے بعد شروع ہونے والی الزام تراشیوں نے نہ صرف ملکی سیاست پر طاری جمود توڑ دیا ہے بلکہ مسلم لیگ نون کے سوئے ہوئے شیر کو بھی جگا دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ وقت آنے پر نون لیگ کا ووٹر سڑکوں پر نکلنے کے لیے بھی تیار ہے۔
پاکستانی سیاست پچھلے کئی ماہ سے کرونا وائرس آنے کے بعد سے ایک جمود کا شکار تھی اور اپوزیشن کی جماعتیں ایک کونے میں خاموش بیٹھی چائے کے ساتھ رس کھا رہی تھیں۔ پھر اچانک نجانے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کو کیا سوجھی کہ نیب کے ذریعے مریم نواز کو طلب کرنے کا خیال ان کے ذہن میں آگیا۔ مریم کو تو جیسے موقع کی تلاش تھی کہ وہ اپنے چچا شہباز شریف کے ہاتھوں لوری سنا کر گہری نیند سلائی گی نواز لیگ کو ایک بار پھر سے جگا پائیں۔ مریم نے اس موقع کا پورا فائدہ اٹھایا اور سیاسی طاقت کا ایک بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے نون لیگ کے سوئے ہوئے شیر کو جگا دیا اور ثابت کیا کہ ان کی جماعت ابھی زندہ ہے اور وقت آنے پر ان کا ورکر سڑکوں پر آکر احتجاجی تحریک چلانے کے لیے بھی تیار ہے۔
بلاول بھٹو گذشتہ کچھ عرصے سے اپوزیشن کی سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کی کوشش تو کر رہے تھے لیکن اسی دوران سیاسی مبصرین نون لیگ کے صدر شہباز شریف پر سیاسی طور پر غیر متحرک ہونے کا الزام عائد کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند مہینوں سے سیاسی افق پر اپوزیشن کی سرگرمیاں ماند نظرآ رہی تھیں۔ بعض ناقدین اور سیاسی مبصرین کا یہ تک کہنا تھا کہ ن لیگ کے رہنماؤں نے لب سی لیے ہیں اور کہا جانے لگا تھا کہ ’حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور یہ کہ اگلے چھ ماہ میں اپوزیشن کی جانب سے بڑی احتجاجی تحریک چلنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔‘ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ن لیگ کا ووٹر احتجاجی مہم یا دھرنوں کا قائل نہیں کیونکہ اس کی ’ن لیگ سے محبت ووٹ کی حد تک ہے، وہ جیل جانے یا پولیس کے ڈنڈے کھانے والا مزاج نہیں رکھتا۔‘
لیکن 11 اگست کو پنجاب کے شہر لاہور میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر ہونے والی سیاسی ہنگامہ آرائی سے صورتحال کچھ بدلتی نظر آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی لاہور کا واقعی حکومت وقت کی ہزیمت اور ن لیگ کی سیاست کو جگانے کا ذریعہ بنا ہے؟ مریم نواز کافی عرصے سے خاموش تھیں حتیٰ کہ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آ رہی تھی۔ لیکن نیب دفتر کے باہر پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکے جانے کے باوجود مریم نواز نے مزاحمتی بیانیہ اپنائے رکھا۔ نیب کے اس اعلامیہ کے باوجود کے آج کی پیشی منسوخ کردی گئی ہے مریم گیم قومی احتساب بیورو کے لاہور دفتر کے باہر ڈیڈھ گھنٹہ تک کھڑے ہو کر یہ اعلان کرتی رہیں کہ آؤ، مجھے بلایا ہے تو مجھ سے سوال بھی کرو اور جواب بھی لو۔ جب نیب کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ شہباز شریف ایسا نہیں چاہتے تھے۔
مریم نواز نے پریس کانفرنس میں بھی حکومت وقت اور نیب کی دھجیاں بکھیریں اور اس روز سے وہ سوشل میڈیا پر بھی متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ مریم نہ صرف ٹوئٹر پر خاصی سرگرم ہو گئی ہیں بلکہ انہوں نے اپنی جماعت کے رہنماؤں اور پارٹی کے کارکنان سے بھی رابطہ رکھنا شروع کر دیا ہے جس کی پہلے انہیں اجازت نہیں تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے مریم نواز کو کو مزاحمتی بیانیہ اپنائے رکھنے کی اجازت دے دی ہے حالانکہ شہباز شریف کو اس پالیسی سے شدید اختلاف ہے اور وہ تمام تر حکومتی زیادتیوں کے باوجود مفاہمتی بیانیہ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا بھی ہے کہ گیارہ اگست کے واقعہ نے ایک مرتبہ پھر مریم نواز کو نون لیگ کی طاقتور اور مقبول لیڈر کے طور پر شہباز شریف کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ پارٹی کا ووٹر نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ چلتا ہے شہباز شریف کے بیانیے کے ساتھ نہیں۔
مریم نواز کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ جس بہادری اور جرات مندی سے وہ پولیس کی طرف سے پتھروں کی بارش کے دوران ڈٹی رہیں اس نے نون لیگ کے کارکنان کو بھی حوصلہ اور ہمت دی۔ مریم نواز ٹوئٹر پر زخمی کارکنان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی شئیر کر رہی ہیں جن میں وہ خود پر ہونے والے ’حملے‘ کی تفصیلات بتا رہی ہیں۔ مریم کے پرسنل سیکرٹری ذیشان ملک کا کہنا تھا کہ ’آپ گاڑی کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کو ہونے والا نقصان پتھر سے نہیں ہو سکتا۔ کوئی تو ایسی چیز ماری گئی ہے جس نے اس کی یہ حالت کی ہے۔ آپ اسے گولی بھی کہہ سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مریم نواز کو پولیس کی جانب سے دانستہ طور پر جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور اگر گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘
یاد رہے مریم نواز کی نیب پیشی کے موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کا الزام نیب کی جانب سے مریم نواز اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں پر لگایا گیا ہے جس کی ناصرف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے بلکہ پانچ درجن سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرکے 14 روز کے لئے حوالات بھیج دیا گیا ہے۔ تاہم مسلم لیگ ن اس تصادم کا الزام پولیس اہلکاروں پر عائد کرتی ہے، اور اس سلسلے میں مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر افراد کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست بھی دے رکھی ہے۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سیاسی اور انتظامی، دونوں صورتوں میں، اس واقعے کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہو گا۔ سیاسی فائدے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے سے قبل عام تاثر یہ تھا کہ ن لیگ مفاہمتی سیاست کی طرف چل پڑی ہے اور اس میں احتجاجی سیاست کا دم خم ہی نہیں ہے۔ لیکن 11 اگست کو نون لیگ نے ثابت کیا کہ اگر چیلنج پیش آیا تو وہ احتجاجی تحریک چلانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہ بھی سمجھا جا رہا تھا کہ نواز شریف کے جانے کے بعد ان کی جماعت کا اصل بیانیہ مفاہمت کا بیانیہ ہے۔ ’یعنی جو نواز شریف کا بیانیہ تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔ لیکن مزاحمتی بیانیہ اپنا کر مریم نے مفاہمتی بیانیے کو رد کر دیا ہے۔ نیب دفتر کے باہر تصادم کے حوالے سے دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر پہل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’انتظامی معاملات میں یہ سب باتیں ہوتی ہیں کہ امن و امان کی صورتحال کس نے خراب کی، پتھر کون لے کر آیا، پہل کس نے کی یا کس کی غلطی تھی لیکن انتظامی معاملات میں جب بھی صورتحال بگڑتی ہے تو انتظامیہ ذمہ دار ہوتی ہے جس کا کام ہے کہ صورتحال کو قابو میں کرنا یا بگڑنے نہ دینا اور حزبِ مخالف کا کام ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھانا۔ اس لیے سیاسی طور پر بھی ن لیگ کی جیت ہوئی ہے اور انتظامی طور پر انتظامیہ کو شکست ہوئی ہے۔‘
سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ گیارہ اگست کے واقعہ نے مسلم لیگ نون کو ایک بار پھر سے متحرک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے جس کا کریڈٹ حکومت وقت کو جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے ملکی سیاست پر طاری جمود کو بھی توڑا ہے اور اب امید یہی ہے کہ سیاست رکنے کی بجائے آگے کی طرف بڑھے گی۔ مریم نواز کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’ن لیگ نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیے کو یکسر چھوڑ نہیں سکتی اور اب بھی اس پر قائم ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس واقعے کے لیے وقت کا تعین درحقیقت نیب نے کیا کیونکہ مریم تو آرام سے گھر بیٹھی تھیں لیکن جب نیب نے انہیں موقع دیا تو مریم نواز نے اس سے بھر پور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ مریم نے اپنی پریس کانفرنس سے یہ تاثر بھی دیا ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں اور ان کی جماعت اب بھی کافی حد تک عوامی طاقت رکھتی ہے۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے صارفین ابھی تک 11 اگست پر پیش آئے واقعے پر اپنی آراء کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ کئی صارفین مریم نواز کی نیب میں پیشی اور پریس کانفرنس کے موقعے پر ان کے چچا اور نون لیگ کے صدر شہباز شریف کی غیر موجودگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہتے نظر آئے کہ ’بھتیجی پر حملہ ہوا اور چچا لاہور میں ہونے کے باوجود پہلے پیشی اور پھر پریس کانفرنس سے بھی غائب ہو گے۔ کیا ایسی مفاہمت کا اچار ڈالنا ہے۔ کئی صارفین یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ’مریم نواز کی ایک پیشی اور پریس کانفرنس، شہباز شریف کی زیر قیادت نون لیگ کی دو سالہ کارکردگی سے سو گنا بہتر ثابت ہوئی ہے اور ثابت ہوا کہ اگر سیاست نے آگے بڑھنا ہے تو نام نہاد مفاہمتی بیانیے کی بجائے مزاحمتی بیانہ لیکر چلنا ہو گا۔