کیا نواز شریف ہمت ہار کر اب سیاست سے رخصت ہو رہے ہیں؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ اکتوبر 2023 میں جب نواز شریف واپس آئے اور مینارِ پاکستان پر جلسے سے خطاب کیا تو وہ کافی پرامید سنائی اور دکھائی دیتے تھے۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ آج حالات یہ ہیں کہ میاں صاحب لوگوں سے بہت کم ہی ملتے ہیں۔ پارٹی صدارت سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے ایک آدھ پارٹی میٹنگ بھی کی مگر وہ سیاست میں متحرک نہیں ہو سکے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمر اور صحت کا تقاضا ہے یا نواز شریف ہمت ہار بیٹھے ہیں؟
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ فروری الیکشن کےلیے مسلم لیگ نون کا نعرہ تھا ’’پاکستان کو نواز دو۔‘‘ فوج اور عمران خان کی شدید کشیدگی کے پس منظر میں نواز شریف کے چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کی راہ میں بہ ظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تھی۔ لیگی راہ نما برملا دعویٰ کر رہے تھے کہ’ ان کی بات ہو چکی ہے۔‘ یہ وہ منظر تھا جو نواز شریف اور ان کے حامیوں کو سامنے نظر آ رہا تھا۔ مگر پھر ’’سانحہ‘‘ آٹھ فروری ہو گیا۔ نواز شریف بری طرح اپ سیٹ ہوئے لیکن اس کے باوجود وہ وزیر اعظم بن سکتے تھے، لیکن اُس صورت میں مریم وزیرِ اعلیٰ نہیں بن سکتی تھیں کیوں کہ ایک کوٹہ سسٹم شریف خاندان کے اندر بھی موجود ہے۔ ایسے میں نواز شریف پیچھے ہٹ گئے اور اپنی بیٹی کو آگے کر دیا۔
حماد غزنوی کے بقول نواز شریف اب پہاڑوں میں رہتے ہیں، آخری بار انہیں راوی اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کا جائزہ لیتے دیکھا گیا تھا۔ کچھ کچھ دن بعد خبر آتی ہے کہ وہ سیاست میں متحرک ہونے والے ہیں، پھر خبر آ تی ہے کہ وہ علاج کےلیے لندن جانے والے ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کی سیاست سے ناگہانی رخصتی کا وقت آ چکا ہے؟ کچھ دن پہلے ہم نے میاں صاحب کے ایک معتمدِ خاص سے پوچھا کہ میاں صاحب سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ تو انہوں نے ترنت فرمایا کہ میاں صاحب پر آج کل مردم بے زاری طاری ہے اور وہ کسی سے کم کم ہی ملتے ہیں۔ نواز شریف کے ایک اور پرانے ساتھی کہتے ہیں کہ اب نواز شریف ہم لوگوں کو واٹس ایپ پر بھی میسر نہیں ہیں۔پارٹی صدارت سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے ایک آدھ پارٹی میٹنگ بھی کی مگر اس میں کیے گئے فیصلے کے باوجود میاں صاحب سیاست میں متحرک نہیں ہو سکے۔
ہر سیاست دان کی ایک ’وراثت‘ ہوتی ہے جس میں اہم ترین نکتہ وہ ہوتا ہے جہاں وہ اپنا سیاسی سفر تمام کرتا ہے، وہ اپنے پورٹریٹ کو فائنل ٹچ دیتا ہے، اس کے سیاسی کیرئیر میں جو کوتاہیاں رہ گئی ہوتی ہیں وہ انہیں سنوارتا سجاتا ہے، وہ خود کو تاریخ کی عدالت میں پیش کرنے سے پہلے اپنا بہترین کیس تیار کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی ’’سیاسی میراث‘‘ کیا ہے؟ ہمارے اکثر سیاست دانوں کی طرح نواز شریف بھی ایک فوجی جرنیل کی انگلی پکڑ کر مکتبِ سیاست میں داخل ہوئے لیکن 1993 میں انہوں نے ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کہہ کر اپنے نئے جمہوری سفر کا آغاز کیا، 1997میں نواز شریف نے آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کیا جسے جمہوریت کی بڑی فتح قرار دیا گیا، 1999 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی تیسری حکومت کو ثاقب نثار اور قمر باجوہ کی جوڑی نے ایک منظم سازش کے ذریعے زمیں بوس کیا اور نواز شریف کو جیل کی کال کوٹھڑی کے سپرد کر دیا۔ نواز شریف 1999 سے اس ملک میں جمہوری مزاحمت کا ایک روشن استعارہ سمجھے جاتے ہیں، جنہیں اس صدی کے پہلے دو عشروں میں فقط ایک الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا رسک لیا گیا۔ وہ لگ بھگ 25 سال تک پاکستان کے مقبول ترین سیاسی راہ نما رہے ہیں۔
لیکن حماد غزنوی کہتے ہیں کہ 8 فروری 2024 کو ان کا یہ اعزاز چھن گیا۔ ربع صدی کے بعد ان کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ شناخت دھندلا گئی، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بے صدا ہو گیا، اور مسلم لیگ نون نے فوج کی واضح حمایت سے شہرِ اقتدار میں سکونت اختیار کر لی۔ اب فرض کر لیں کہ نواز شریف کی عملی سیاست کے دن اس مقام پر تمام ہوئے، تو ذرا جمع تفریق کر کے بتائیے کہ تاریخ انہیں کس مسند پر بٹھائے گی؟ نواز شریف کے حامی یہ منظر حیرت سے دیکھ رہے ہیں، چھ ماہ پہلے تک وہ چشمِ تصور سے نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم کا حلف اٹھاتے دیکھ رہے تھے، اور پھر چشم زدن میں ان کے خواب بکھر گئے، نواز شریف منظر سے ہی ہٹ گئے۔ میاں صاحب کی سیاست سے اچانک کنارہ کشی نے ان کے حامیوں کو دماغی طور پر تیار ہونے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا، غالباً میاں صاحب خود بھی اس کےلیے تیار نہیں تھے۔ ’جھٹکا‘ شاید اسی کو کہتے ہیں۔ یہ دوست اپنے لیڈر کی سیاست میں واپسی کے حوالے سے قیافے لگاتے رہتے ہیں، مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ناامید ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگلا منظر بھی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ نواز شریف کی سیاسی جانشین وزیر اعلی پنجاب ہیں؟ مگر وہ تو 16 گھنٹے جانفشانی سے ایڈمنسٹریشن کے فرائض انجام دیتی ہیں، اور سیاست کےلیے تو ان کے پاس وقت ہی نہیں بچتا۔ دوسری جانب شہباز شریف بھی بطور مینیجر معروف ہیں۔ اس صورتِ حال میں رہ رہ کر بلقیس خانم کا گایا ہوا یہ شعر ذہن میں آتا ہے:
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا