کیا پیپلز پارٹی الیکشن میں بڑا سرپرائز دے سکتی ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن کے بعدمسند اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کیلئے انتخابات مین اپنے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر بھی نظریں جما لی ہیں۔ پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے سپورٹرز کو اس بات پر مائل کرنے کیلئے کوشاں ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں رائے استعمال کرنے کی صورت میں ان کا ووٹ ضائع ہو سکتا ہے، کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے اراکین اپنی وفاداریاں بدل سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ’پھرتیاں‘ موجودہ مخصوص ملکی حالات میں معنی خیز دکھائی دیتی ہیں اور شاید یہ جماعت دوسری سیاسی پارٹیوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کو درپیش مشکل حالات کو انتخابات میں کیش کرنے کی پہلے ہی منصوبہ بندی کر چکی ہے۔بلاول بھٹو زرداری خصوصاً پنجاب میں ایک فعال اور تیز و تند انتخابی مہم کے ذریعے تحریک انصاف کے نوجوان حمایتیوں کی توجہ حاصل کر کے ان کے دل اور ووٹ جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے 12 ویں پارلیمانی انتخابات کے لیے انتخابی منشور کا اعلان اور مہم کا آغاز کر کے پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی نسبت زیادہ متحرک ہونے کے علاوہ آنے والے انتخابات میں زیادہ پرامید ہونے کے اشارے دے رہی ہے۔گذشتہ چند ہفتوں کے دوران رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی باپ کی باقیات میں سے اہم الیکٹ ایبلز اور جنوبی پنجاب کے کچھ بااثر خاندانوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی اس جماعت کی قیادت کے پراعتماد ہونے کا عندیہ دیتی ہے۔
سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے خیال میں پیپلز پارٹی کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے زیر عتاب ہونے کی وجہ سے انتخابی منظرنامے سے تقریباً باہر ہونے کو ایک ’اوپننگ‘ کے طور لے کر اس موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں مسلم لیگ ن بھی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہے، جس سے پیپلز پارٹی پوری طرح مستفید ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
سینیئر صحافی سلیم بخاری کے مطابق ’کچھ دنوں سے یکایک تمام اہم ریاستی قوتیں مسلم لیگ ن کو محدود کرنے کی کوششیں کرتی نظر آ رہی ہیں۔‘غور کریں تو گذشتہ چند روز کے دوران ملک کے تمام اہم اینکرز کی ہمدردیاں بھی مسلم لیگ ن سے پیپلز پارٹی طرف شفٹ ہو گئی ہیں۔‘سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی فروری کے انتخابی دنگل میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ’مشکل وقت‘ میں ہونے کو اپنے فائدے میں موڑنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
بعض دوسرے سیاسی تجزیہ نگار پیپلز پارٹی کی ’تیزیوں‘ کو ایک الگ زاویے سے بھی دیکھتے ہیں، جس کے مطابق فروری کے انتخابات پی پی پی کے مختلف نوعیت کے حامل ہیں۔کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری کی رائے میں 1970 کے بعد سے آٹھ فروری کے انتخابات میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی آزادانہ طور پر الیکشنز میں حصہ لے گی اور لگتا ہے کہ اس مرتبہ اس کے ساتھ ’گھپلا‘ نہیں کیا جائے گا۔ ’پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ اس مرتبہ اس کو جو ووٹ ڈالا جائے گا وہ گنا بھی جائے گا اور اس نے لیول پلیئنگ فیلڈ بھی حاصل کر لی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کا ووٹر اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باعث حق رائے دہی استعمال کرنے سے جی چراتا تھا۔’اس مرتبہ بلاول نے انتخابی مہم سب سے پہلے شروع کی تاکہ جماعت کے وفادار ووٹرز کی حوصلہ افزائی کر کے اسے آٹھ فروری کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جائے۔‘پیپلز پارٹی کو کھل کر کھیلنے کی ’اجازت‘ ملنے کی وجہ سے متعلق سوال پر نذیر لغاری کا خیال تھا کہ ’اس کی وجہ شاید اسٹیبلیشمنٹ کا تحریک انصاف کے ساتھ مصروف ہونا ہے۔‘
پسماندہ اور الگ تھلگ کمیونٹیز کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کوشاں پتن ترقیاتی تنظیم کے قومی رابطہ کار سرور باری کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کی آئندہ ماہ کے انتخابات میں غیر فعال ہونے کی صورت میں اس کا ووٹر پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ کا استعمال کر سکتا ہے۔’اور ایسا وہ مسلم لیگ ن کو سزا دینے کے لیے کرے گا۔‘انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو پنجاب میں جو انتخابی مہم چلا رہے ہیں اس میں ان کی اپنی جماعت کے علاوہ مسلم لیگ ن کے حمایتی بھی شرکت کر رہے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ پی پی پی اپنے علاوہ پی ایم ایل این کے ووٹرز کو بھی رام کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو اس وقت زیادہ اینٹی نون بیان بازی کر رہے ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے خلاف کم بات کرتے ہیں۔’اس کا واضح مطلب ہے کہ بلاول پی ٹی آئی کے ووٹر کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ضیغم خان کے خیال میں پیپلز پارٹی کے لیے پی ٹی آئی کا ووٹ قابو کرنا بہت مشکل کام ثابت ہو گا، جس کی وجہ پی ٹی آئی ووٹرز کے رویوں کو بالکل مختلف ہونا ہے۔’پرانی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی 20 ویں صدی میں پھنسی ہوئی ہیں اور نوجوانوں کے ساتھ بالکل بھی ہم آہنگ نہیں ہیں۔’اس کے برعکس پی ٹی آئی کا ووٹ بینک نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو دراصل انہین پرانی جماعتوں کے خلاف بنایا گیا تھا۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ زندہ ہونے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن وہاں اس کا اپنا جیالا بھی نظرانداز ہوتا رہا ہے، جسے منانے کی ضرورت ہے۔’لیکن ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اتنے وقت میں اپنے ورکرز اور ووٹرز کو منا لینا مشکل ہے، پی ٹی آئی کے حامیوں کو کیسے رام کیا جا سکتا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو پذیرائی مل سکتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستیں جیت جائیں گے۔
سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کی کم از کم 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی، جبکہ بلوچستان میں بھی ان کی کارکردگی بہتر رہے گی۔