کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں نون لیگ کو ٹف ٹاہم دےسکتی ہے؟
پیپلز پارٹی نے وفاق میں اقتدار کے حصول کیلئے جارحانہ حکمت عملی پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی قیادت نے الیکشن میں سادہ اکثریت کے حصول کیلئے پنجاب کے ووٹ بینک پر اپنی نظریں جما لی ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب بلاول بھٹو زرداری وسطی پنجاب میں نہ صرف انتخابی مہم چلا رہے ہیں بلکہ خود بھی لاہور کے ایک حلقے سے امیدوار ہیں اور وہ وفاق میں حکومت بنانے کے خواہاں بھی ہیں۔ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کی 80 نشستوں میں اتنا حصہ وصول کرسکتی ہے کہ ان کو اقتدار کے حصول کیلئے نمبر گیم میں مشکل پیش نہ آئے؟
خیال رہے کہ سنہ 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور ڈویژن سے قومی اسمبلی کی 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔سنہ 2013 میں ان تمام ڈویژنوں میں پیپلز پارٹی ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی جبکہ 2018 میں صرف راجا پرویز اشرف کی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔یہی نہیں کہ وسطی پنجاب کے پانچ ڈویژن میں گذشتہ دو انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ناکامی کا سامنا رہا ہے بلکہ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ کوئی بھی امیدوار دوسرے نمبر پر بھی نہ آسکا اور بیشتر کی تو ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں۔
تاہم دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق 2008 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پورے ملک میں پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا اور اسی لیے اس نے پنجاب میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ اُس وقت بلاول بھٹو زرداری جو کم عمر تھے لہٰذا وہ پارٹی سیاست سے لاتعلق رہے۔ آصف علی زرداری صدر بن کر ایوان صدر میں بیٹھ گئے، تاہم ان کی جماعت ملکی معاملات سنبھالنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔دوسری طرف پنجاب میں شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف محاذ سنبھالے رکھا جس کے باعث جنوبی پنجاب کے علاوہ پورے پنجاب سے انتخابی میدان میں پی پی پی کا صفایا ہوگیا۔یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے گذشتہ پانچ سال کے دوران پنجاب میں پارٹی کی جگہ واپس لینے کے لیے چلائی گئی کئی مہمات بھی ناکام رہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق’وسطی پنجاب میں 10 سال سے پیپلز پارٹی کو جس بحران کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجہ اُن کے وہ الیکٹ ایبلز ہیں جو 2008 کے الیکشن سے قبل جماعت میں آئے اور پھر ن لیگ، تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ ’ان امیدواروں کی شکست کی بنیادی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی بلکہ 2008 سے 2013 کے دوران پیپلز پارٹی کا تشخص حکومتی کارکردگی کی وجہ سے خراب ہوا۔ امیدوار اپنا پورا زور لگا کر بھی اس تشخص کو دُرست نہیں کر پا رہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے جو رہنما اس وقت بھی وسطی پنجاب میں مقابلے کی پوزیشن میں ہیں ان کی خوبی صرف یہ ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ جُڑے رہے اور موجودہ انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹوں کی تقسیم میں کیے گئے غلط فیصلے اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے پاس انتخابی نشان نہ ہونے کا انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘’اگر 2018 کے عام انتخابات میں پنجاب کے پانچ ڈویژنز میں پیپلز پارٹی کے پاس صرف ایک سیٹ تھی تو اب دو سے تین ہوسکتی ہیں لیکن یہ نمبر وفاق میں حکومت بنانے کے دعوؤں کو سپورٹ نہیں کرتا۔‘
8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب کے تقریباً تمام حلقوں سے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری، راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر امیدوار صرف کاغذی کارروائی ہیں۔پیپلز پارٹی نے وسطی پنجاب کے قومی اسمبلی کے لیے راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، ساہیوال اور سرگودھا ڈویژن سے 79 امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ان قابلِ ذکر امیدواروں میں راولپنڈی ڈویژن میں این اے 52 گوجر خان سے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، گوجرانوالہ ڈویژن میں این اے 65 لالہ موسیٰ سے سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ، این اے77 سے امتیاز صفدر وڑائچ، سرگودھا ڈویژن میں این اے 82 سے سابق وفاقی وزیر ندیم افضل چن امیدوار ہیں۔
این اے 84 سے سابق وزیر مملکت تسنیم احمد قریشی، این اے 98 سمندری سے رانا فاروق سعید خان اور لاہور ڈویژن میں این اے 127 سے بلاول بھٹو زرداری اہم امیدوار ہیں۔زمینی حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو اس وقت بھی وسطی پنجاب کے جن حلقوں میں پیپلز پارٹی کو جو امیدوار نظر آرہے ہیں اور وہ اپنے حریفوں سے مقابلے کی پوزیشن میں ہیں وہ یہی امیدوار ہیں۔ باقی حلقوں میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے درمیان ہے۔
تجزیہ کار اجمل جامی کا کہنا ہے کہ وسطی پنجاب سے راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور بلاول بھٹو زرداری کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ ’پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں اچھی مہم چلائی ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے عطا تارڑ کو شکست دے سکیں۔‘