کیا چھ ماہ بعد الیکشن کروانا ممکن بھی ہو گا؟
سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ الله خان نیازی نے کہا ہے کہ بظاہر چند ماہ کی تاخیر کے باوجود ، انتخابات کرانے کے لئے خلوص اور عزم صمیم تو موجودہے مگر سوال یہ ہے کہ ، کیا چھ ماہ بعد الیکشن کروانا ممکن بھی ہو گا ؟ اگر الیکشن فروری سے چند ماہ آگے گئے تو پھر آئین کو ساقط ہی سمجھیں ۔ہمارا ماضی گواہ کہ اگر الیکشن ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں . اپنے ایک کالم میں حفیظ الله خان نیازی کہتے ہیں کہ کوئی سیاسی عالم بھی سیاست خصوصاً پاکستانی سیاست کے بارے میں حتمی رائے دینے سے قاصر ہے ۔ آج کی سیاسی رائے آج کے زمینی حقائق پر قائم کی جاتی ہے مگر جب ، زمینی حقائق تبدیل ہو جائیں تو نتائج کا تبدیل ہونا بھی یقینی ہے ۔ استحکامِ پاکستان، سیاسی پارٹی میں نہیں، آئینِ پاکستان سے جُڑا ہے۔ آئینِ پاکستان کا وجود جمہوریت کے مرہون منت ہے جبکہ آئین اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں ۔آج ملکی استحکام ایک بار پھر دوراہے پرہے ۔ آج سیاسی امن عامہ ، اقتصادیات ، سفارتی فیصلہ سازی کا سارا دارومدار اور انحصار بحالتِ مجبوری ہماری فوجی قیادت کے سر پرہے ،اس لئے نہیں کہ ملک عسکری قبضہ میں ہے۔ یقینا یہ ناگوار فریضہ آج کی قیادت کے زبردستی گلے پڑ گیا ہے جس کا مکمل ذمہ دار عمران خان ہے ۔ ملک میں جب بھی ایسے حالات بنے ، صلاح مشورے کے نظام کا انحصار فرد واحد یا پھر غیر منتخب یا نوکری پیشہ ماتحت افراد پرآ جاتا ہے اور فیصلہ سازی میں عوامی رائے قریب نہیں بھٹکتی ………… . حفیظ الله نیازی بتاتے ہیں کہ ایوب خان کی بنیادی جمہوریت ہویا جنرل یحییٰ کے 1971 کا” الیکشن پلس” فارمولا یا جنرل ضیاء الحق کا غیر جماعتی الیکشن یا پھر جنرل مشرف کی ق لیگ یا پھر جنرل باجوہ کا RTS الیکشن اور اس کے ساتھ پروجیکٹ عمران کا وجود، ہر موقع پر خلوصِ دل سےگم شدہ سیاسی استحکام کو تلاش کیا گیا ۔ مگر خدشہ ہے کہ آج بھی پہلی ترجیح الیکشن نہیں ہے، آج بھی پہلی ترجیح سیاسی استحکام کی تلاش ہے ۔ آج کے حالات کی ذمہ داری آج کی قیادت پر نہیں،جنرل عاصم منیر بے قصور اور مجبور ہیں کیوں کہ عمران خان نے اُنکے لئے کوئی چوائس چھوڑی نہیں ۔ ایک نئی تعیناتی کو بغیر وجہ کے آڑے ہاتھوں لیا، پورے ادارے کو بے توقیر کرنے میں دن رات لگایا۔ جہاں عمران خان نے اپنے سیاسی مستقبل کا گلا گھونٹ دیا ، وہاں بہ امر مجبوری سیاسی انجینئرنگ سے وجود میں آنے والا پروجیکٹ عمران خان کی سیاسی ریورس انجینئرنگ اسٹیبلشمنٹ کی پہلی ترجیح بن گئی ۔ حفیظ الله نیازی کے مطابق ،مقبولیت کا زُعم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے نہ بچا سکا عمران خان نے بھی سارے جھگڑے مقبولیت کے زُعم میں مول لے لئے ۔71 سالہ عمران خان کو اپنی مقبولیت کا زُعم کہاں پہنچائے گا ، یہ فیصلہ اُن کو خود کرنا ہے ۔ عمران خان کا مکو ٹھپ کر ہی سیاسی استحکام ملے گا اور الیکشن ممکن ہوں گے ۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی دوسری ترجیح انتخابات اور پھر مضبوط سیاسی حکومت کا قیام ہے ۔ جوں جوں اتحادی حکومت کا دمِ رخصت کے قریب آیا، اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں وزیراعظم کے لئے نواز شریف کا نام ہی جچا ہوگا۔ زرداری صاحب بھی حالات کو بھانپ کر بلاول کامستقبل سنوارنے کا موقع جانچ چُکے تھے ۔ اتحادی حکومت کے آخری چند ماہ ، خصوصاً 9 مئی کے بعد زرداری صاحب کا خیال تھا کہ ، بلاول زرداری کے وزیراعظم بننے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ عمران خان سے توبہ تائب اراکین اسمبلی جوق در جوق جب بے روزگار ہو رہے تھے ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے پاس اُن کو سمونے کی گنجائش صفر بٹہ صفر تھی ۔ زرداری صاحب کی سوچ یہ تھی کہ ، 50/60نشستیں سندھ سے ، 15/20 پنجاب اور کم و بیش اتنی ہی KP اور بلوچستان سے، 100\110 سیٹوں کیساتھ اکثریتی پارٹی بننے کا امکان روشن ہے ایسے میں وزیراعظم بلاول کا مطالبہ جائز رہے گا ،۔ مگر یہ سب اسٹیبلشمنٹ کے وارے میںنہیں تھا ۔ فوری طور پر تحریک انصاف چھوڑنے والوں کے لئے جائے اماں” استحکام پاکستان پارٹی” کا بندوبست کرنا بنتا تھا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ استحکام پارٹی نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ذہنوں میں کیا خدشات ڈالے ۔استحکام پاکستان پارٹی بطورپریشر گروپ ہی اسٹیبلشمنٹ کے ذہن میں تھی ۔ حفیظ الله نیازی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک 15 نشستیں استحکام پارٹی کوجبکہ ایم کیو ایم ، باپ، GDA کے حصہ میں بھی اتنی ہی آتیں۔ آزاد ملا کر اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر 60/70 نشستیں ہوں گی ،جو انکے مطابق مستحکم سیاسی حکومت بنانے کا ایک کارآمد فارمولا ہوتا ہے ۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن تھا جب زمینی حقائق اِسکے مطابق تھے ۔ یقینا کوئی کمی بیشی ہوئی کہ چند مہینوں میں ہی آج استحکام پاکستان شکایت کنندہ بن کر سامنے ہے ۔ اندرون خانہ شاکی کہ ” ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے ” ۔ اگر چہ اسٹیبلشمنٹ اب تک اپنے ڈرائنگ بورڈ پر کچھ تبدیلیاں متعارف کروا چُکی ہو گی، چھ ماہ بعد رونما ہونیوالی تبدیلیاں اوراُسکا اندازہ لگانا اُنکے لئے آج بھی مشکل رہنا ہے ۔ خدشہ ہے مقتدر حلقے چاہتے ہوئے بھی شاید الیکشن نہیں کرا پائیں گے ۔ اگر الیکشن فروری سے چند ماہ آگے گئے تو پھر آئین کو ساقط ہی سمجھیں ۔ہمارا ماضی گواہ کہ اگر الیکشن ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں ۔ الیکشن سے پہلے جو سیاسی استحکام چاہئے اُس کی جستجو میں یقینا نیا بحران جنم لے گا۔ نئے بحران کے جلو میں مزید کئی نئے بحران مملکت کو اپنی گرفت میں لینے کوبے تاب ہیں ۔جمہوری نظام کی غیر موجودگی میں ، نبٹنے کی استعداد اور صلاحیت بھی موجود نہیں ۔ کیا سیاسی استحکام کے حصول میں استحکامِ پاکستان پھر خطرے میں گِھر چُکا ہے ؟