کیا 2021 عمران کے اقتدار کا آخری برس ہو گا؟

اپنے اقتدار کے تیسرے برسی میں وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی محاذ پر درپیش چیلنجز میں اضافوں کا سامنا ہے اور بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج مرکز اور پنجاب میں اپنی پارلیمانی اکثریت برقرار رکھنے کا ہے۔
اپنے اقتدار کے دوران عمران خان کو اب تک سب سے بڑا سیاسی چیلنج اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت مخالف تحریک کی صورت میں تھا جو کہ اب تقریبا ختم ہو چکا ہے خصوصا پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے باہمی اختلافات کے بعد۔ لیکن حالیہ دنوں تحریک انصاف کے باغی دھڑے کی تشکیل نے وزیراعظم عمران خان کی راتوں کی نیند حرام کر دی ہے اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم خیال گروپ کا قیام عمران خان کی حکومت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوگا جو کہ انکے اقتدار کے کیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کاروں کا کہنا ہے حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار عمران خان معاشی میدان میں کارکردگی دکھانے میں مکمل طور ناکام رہے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف مہنگائی کئی سو گنا بڑھ گئی ہے بلکہ عوام کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں۔ لیکن عوام کی مشکلات کا کے ازالے کی کوشش کرنے کی بجائے عمران پچھلے تین برسوں سے صرف احتساب کا ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں جو اب ایک انتقامی ایجنڈے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کا نہ تو عوام کو کوئی فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی پاکستان کو۔ دوسری جانب مرکز اور۔پنجاب میں ترین کے ہم خیال پارلیمانی گروپ بننے سے پارٹی میں خانہ جنگی کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کے ایک منتقم مزاج عمران خان کے خلاف اس حد تک جانا جہانگیر ترین کےلیے کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا اور ویسے بھی وہ کوئی جلد باز شخص نہیں۔ وہ بہت محتاط انداز میں اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ لہازا یہ واضح ہے کہ ترین نے نہ صرف بہت سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے بعد اپنا دھڑا بنانے کا سوچا ہو گا بلکہ اس عمل کے پیچھے بہت سے ایسے عوامل بھی ہوں گے جو کہ لعام وگوں کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک نئی پریشانی پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں متوقع واپسی سے پیدا ہو رہی ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے ایوان میں موجود تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو سی بھی رابطے کیے جارہے ہیں اور اس امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات ختم کروا کر بہت جلد اپوزیشن اتحاد اپنی حکومت مخالف تحریک دوبارہ سے شروع کر دے گی۔
اس حوالے سے مفاہمتی بیانیہ لے کر چلنے والے شہبازشریف اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے نواز لیگ کی مزاحمتی حکمت عملی میں بھی نرمی لانا شروع کردی ہے۔ پارٹی کے اندورنی حلقوں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جماعت کو محاذ آرائی سے پیچھے ہٹ کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اسی حوالے سے ایک سینئر لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ ’میں مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 99 فیصد اراکینِ پارلیمنٹ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کےلیے کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں‘۔
نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب شہباز شریف پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکے ہیں اور حالات بھی کچھ اس قسم کے اشارے دے رہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بڑا فیصلہ ہونے جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ملکی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے چیدہ ترین رہنماوں کو مقتدر حلقوں کی جانب سے کچھ ایسے اشارے ملے ہیں جن سے عمران خان کے معاملات مزید پیچیدہ ہونے کا امکان ہے، ان میں سے ایک اہم ترین نام جہانگیر ترین کا ہے جن کے ہم خیال تقریباً 40 ارکین اسمبلی پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں۔ ترین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ پہپے مرحلے میں پنجاب میں بزدار حکومت کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا یے کہ ترین اور ان کے حامی چاہے کتنا ہی کہتے رہیں کہ وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور رہیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد اور لاہور میں پارلیمانی بلاک کا بننا ہی اپنے آپ میں اس دعویٰ کی نفی ہے۔
خیال رہے کہ ترین گروپ میں اکثر تگڑے سیاستدان ہیں جنہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی فکر نہیں ہے اور ان کے انتخابی حلقوں میں ان کا ذاتی ووٹ بینک موجود ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمینٹ نے اب تک اپنی ترجیحات میں تبدیلی کا کوئی واضح اشارہ نہیں دیا لیکن جیسے ہی ایسا کوئی کلئیر اشارہ آ گیا تو حکمران جماعت کے مذید اراکین بھی کسی نئی چھتری تلے جمع ہو جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران کو اقتدار میں لانے والے مقتدر حلقے اب ان کی خود سری سے تنگ پڑھ چکے ہیں قیصر کو بھی کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے بہترین بھی کھل کر سامنے آ چکے ہیں جنہوں نے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر عمران خان کی حکومت بنوانے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ یہ اور بات کہ جب پھل کھانے کا وقت آیا تو ترین کو سپریم کورٹ کے ذریعے نااہل کروا کر باہر کر دیا گیا۔ ذرائع خامکہنا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ بھی مقتدر حلقوں نے کیا تھا۔ اب رنگ روڈ اسکینڈل کی وجہ سے عمران خان حکومت شدید اضطراب کا شکار ہوچکی ہے اسی لیے ذلفی بخاری سے استعفیٰ لیا گیا ہے تا کہ اسکینڈل کی شدت کم کی جاسکے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رنگ روڈ پروجیکٹ کے ترمیمی منصوبے کی منظوری وزیراعظم عمران خان نے خود دی تھی اور اسی لیے اپوزیشن آنے کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطارق ذلفی بخاری کے عہدہ چھوڑنے کو دونوں طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ کپتان حکومت اسے دوطرفہ احتساب کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہی ہے لیکن طاقت کے ایوانوں میں ہونے والی چہ مگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے دیگر عوامل بھی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ذلفی کی سرگرمیوں سے ناخوش تھی، جس کے باعث عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔
دوسری جانب شہباز شریف اس تمام تر صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، وہ اختلافات کو ختم کرنے اور اپنی جماعت اور حزبِ اختلاف کےلیے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کی قیمت پی ٹی آئی کو اقتدسر سے بے دخلی کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔