کیپٹن صفدر کے خلاف جھوٹا کیس: ادارے مزید داغدار ہو گئے

مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مزار قائد کے تقدس کی پامالی کے مقدمے کو کراچی پولیس کی جانب سے جھوٹا قرار دیئے جانے سے نہ صرف اپوزیشن کا یہ موقف درست ثابت ہوا ہے کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی جارہی ہیں بلکہ اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ ایسی بھونڈی کارروائیوں میں ریاستی ادارے بھی برابر استعمال ہو رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پچھلے ماہ مریم نواز کے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے کے بعد اپوزیشن نے یہ الزام لگایا تھا کہ اس ساری کارروائی میں ریاستی ادارے استعمال ہوئے اور آئی جی سندھ کو اغوا کرکے اس ایکشن پر مجبور کیا گیا۔ چنانچہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے کورکمانڈرکراچی کو ذمہ داری سونپی تھی. تاہم اب کراچی پولیس کی جانب سے کیپٹن صفدر اور مریم کے خلاف مزار قائد کی بے حرمتی کا درج شدہ کیس جھوٹا قرار دیے جانے کے بعد ریاستی اداروں کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات اٹھ گئے ہیں کیونکہ بظاہر یہ مقدمہ تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کے اشتہاری بھانجے کی مدعیت میں آئی ایس آئی سندھ کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈئیر حبیب کے دباو پر درج کروایا گیا تھا۔ حکومت سندھ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر جاری اس معاملے کی انکوائری میں بھی سامنے آنے والے شواہد بتاتے ہیں کہ اس واقعے میں سیکٹر کمانڈر سندھ کا مرکزی کردار تھا۔ انکا کہنا یے کہ اس کے دستاویزی ثبوت بھی سندھ حکومت کی انکوائری میں آسانی سے مل جائیں گے۔
حکومت سندھ کی انکوائری تقریبا مکمل ہے اور اب اسے حتمی صورت دی جا رہی ہے۔ اس انکوائری رپورٹ کے مطابق لیگی رہنما کیپٹن صفدر اور دیگر کے خلاف مزار قائد پر ہلڑ بازی کے الزام میں سندھ پولیس کی ڈھال لے کر آئی ایس آئی کے سیکٹر انچارج بریگیڈیئر حبیب کی سرکردگی میں مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ہوٹل کا دروازہ توڑ کر کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور آئی جی پولیس سندھ کے اغوا کی خبر لیک ہونے کے بعد ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچ گئی تھی۔ تاہم یہ مقدمہ جھوٹا قرار دیئے جانے کی بعد سندھ حکومت کی رپورٹ کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تاکہ پتہ چلے کہ اس معاملے میں اصل کردار کون ہے؟
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور دیگر رہنما 18 اکتوبر کو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں شرکت کے لیے کراچی پہنچے تھے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نےٹوئٹر پر بتایا تھا کہ ’پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا۔پولیس کی جانب سے یہ گرفتاری بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے تقدس کو پامال کرنے کے الزام میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دیگر 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد سامنے آئی تھی۔کراچی کے ضلع شرقی کے پولیس تھانہ بریگیڈ میں وقاص احمد نامی شخص کی مدعیت میں مزار قائد کے تقدس کی پامالی اور قبر کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔ باغ جناح میں ہونے والے جلسے میں شرکت سے قبل رہنماؤں اور کارکنان نے مزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی تھی، جیسے ہی فاتحہ ختم ہوئی تو قبر کے اطراف میں نصب لوہے کے جنگلے کے باہر کھڑے مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے مریم نواز کے حق میں نعرے لگانے شروع کیے تھے، جس پر کیپٹن (ر) صفدر نے بظاہر مزار قائد پر اس طرح کے نعرے لگانے سے روکنے کا اشارہ کر کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگایا جبکہ یہ بھی مزار قائد کے پروٹوکول کے خلاف تھا۔ اس دوران مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما خاموش کھڑے رہے لیکن کیپٹن (ر) نے ایک اور نعرہ لگانا شروع کردیا ’مادر ملت زندہ باد‘ اور ہجوم نے بھی اس پر جذباتی ردعمل دیا۔ یہ صورتحال چند لمحوں تک جاری رہی تھی جس کے بعد مریم نواز اور دیگر افراد احاطے سے نکل گئے تھے۔
9 نومبر کے روز سندھ پولیس نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مزار قائد کے خلاف تقدس کی پامالی کے مقدمے کو ‘جھوٹا’ قرار دے کر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔مقدمے سے متعلق سٹی کورٹ میں ہونے والے سماعت میں پولیس نے استغاثہ کے پیش کردہ اعتراضات کو دور کرکے حتمی چالان جمع کروا دیا جس میں مقدمے کو ‘بی کلاس’ قرار دیا گیا ہے۔پیش کردہ چالان میں مزار قائد کے تقدس، اس کے املاک کو نقصان پہنچانے اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے الزامات خارج کردیے گئے۔پبلک پراسیکیوٹرز نے پولیس کے پیش کردہ چالان پر اتفاق کرتے ہوئے اسے ’بی کلاس‘ کرکے جھوٹا قرار دے دیا۔ چالان میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر کی متعدد کوشش کے باوجود شکایت کنندہ وقاص احمد خان اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے حاضر نہیں ہوا۔علاوہ ازیں چالان میں کہا گیا کہ ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس وقت مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر مزار قائد پر حاضری کے لیے موجود تھے تب مدعی مزار قائد پر موجود نہیں تھا۔چالان میں مدعی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وقاص احمد خان کے کال ڈیٹا ریکارڈ سے ظاہر ہوا کہ وہ مزار قائد میں موجود نہیں تھا۔چالان کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی مزار قائد پر حاضری کے وقت مزار عام شہریوں کے لیے بند تھا۔اس ضمن میں استغاثہ نے اسکروٹنی نوٹ میں واضح کیا کہ قائد اعظم مزار سیفٹی اینڈ مینٹیننس آرڈیننس 1971 ہمارے دائر اختیار میں نہیں آتا، تاہم اگر ایچ ایس او چاہے تو مزار قائد آرڈیننس کے لیے علیحدہ کیس دائر کرنے کا مجاز ہے۔
مقدمے کو جھوٹا قرار دیئے جانے کے بعد یہ اہم سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ کارفرما تھے؟ اس سوال کا جواب سندھ حکومت اور کور کمانڈر کراچی کی انکوائری رپورٹ سے بخوبی مل جائے گا ۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم قیادت اور نواز شریف بھی مطالبہ کرچکے ہیں کہ مزار قائد واقعے کی سازش میں شریک افراد کو سامنے لایا جائے تاکہ اداروں کی ساکھ مزید مجروح نہ ہو۔