گرفتار عمرانڈوز کے گھر والوں کی آہ و بکا اور دہائیاں

نو مئی کو فوجی تنصیبات اور املاک پر حملوں میں مبینہ طور پر ’ملوث‘ افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت کارروائی کی منظوری کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف کے 30 سے زیادہ کارکنوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے کر دیے گئے ہیں جس پر ان کے اہل خانہ گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے تحریک انصاف کی قیادت بالخصوص عمران خان کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے بچے عمرانی فتنے کا شکار ہو گئے، عمران خان کے بہکاوے میں آکر نوجوانوں نے عسکری املاک پر دھاوا بوالا، اب حالت یہ ہے کہ حقیقی آزادی کے نعرے لگانے والی تحریک انصاف کی قیادت ہمارے فون سننے پر ہی تیار نہیں جبکہ عمران خان ہمارے بچوں کا اپنا کارکن بھی تسلیم نہیں کرتے۔ گرفتار نوجوانوں کے والدین کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں کے بچے باہر ہیں انھیں ہم سے سبق سیکھنا چاہیے اور جان لینا چاہیے عمران خان ایک فتنہ ہے جس کا واحد مقصد ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانا ہے۔ عمران خان کو نوجوانوں کے ذریعے ملک میں تبدیلی اتنی عزیز ہے تو اپنے بچوں کو لندن سے کیوں نہیں بھلاتا۔
نو مئی کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں اور توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار افراد کے اہل خانہ ان دنوں تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہیں۔ایک طرف انھیں ان سنگین نوعیت کے الزامات پر تحقیقات کرنے والے پولیس کے تفتیشی افسران کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے بچوں کی رہائی کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک واقعے کی بازگشت سوشل میڈیا پر اس وقت ہوئی جب حاشر درانی نامی نوجوان، جو نو مئی کو لاہور میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں مبینہ طور پر شریک تھے، کو فوجی عدالت کے حوالے کر دیا گیا۔ان کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی کا نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ انھیں ’آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وہ کمپیوٹر سائنس میں تعلیم یافتہ تھے اور پنجاب حکومت میں ایک اچھی تنخواہ پر نوکری کر رہے تھے۔‘جبکہ حاشر درانی نے اپنی گرفتاری سے قبل سلسلہ وار ٹویٹس میں اپنی مشکلات کا ذکر بھی کیا تھا۔انھوں نے 20 مئی کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میری جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں۔ میں تو تباہ ہو گیا ہوں۔ فون بند ہے، روز جگہ بدلنی پڑتی ہے، دوست دروازے پر دیکھ کر کہتے ہیں کہ گھر مہمان ہیں پھر آنا، وی پی این سے کام کرتا ہوں۔ ہر روز گھر پر دو تین مرتبہ پولیس ریڈ کر رہی ہے۔ دو دن بعد والدہ سے بات ہوتی ہے۔ اور پارٹی کہتی ہے کہ ہم ان کے ورکر نہیں۔‘اس کے علاوہ بھی انھوں نے سلسلہ وار ٹویٹس کرتے ہوئے اپنے مشکلات کا ذکر کیا اور پارٹی کا ان کی مدد کو نہ آنے کا شکوہ کیا۔
حاشر کی طرح ملٹری ٹرائل کا سامنا کرنے والے ایک نوجوان ارزم جنید کے والد ایڈوکیٹ جنید رزاق نے پی ٹی آئی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا تو نو مئی کو ایک سیاسی لیڈر کی محبت میں پر امن احتجاج کے لیے لبرٹی پہنچا تھا جہاں سے پارٹی قیادت نوجوانوں کو اشتعال دلا کر کنٹونمنٹ لے گئی۔ایڈووکیٹ جنید رزاق کا کہنا تھا کہ انھیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان کے بیٹے نے پاکستان کی فوج کے خلاف نعرے بازی کی تھی اور یہ نعرے ریلی میں لگائے جا رہے تھے جس میں وہ جذبات میں آ کر یہ غلطی کر بیٹھے۔ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا کور کمانڈر کے گھر میں حملے کے وقت پی ٹی آئی کے جھنڈے کے ساتھ وہاں موجود تھا لیکن ان کا اصرار ہے کہ اس نے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ایڈووکیٹ جنید کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے ارزم جنید کی جانب سے ریلی کے دوران پاکستان کی فوج اور قیادت سے متعلق سخت زبان استعمال کرنے پر بہت شرمندہ ہیں اور معافی مانگتے ہیں۔
کیا پی ٹی آئی نے اس دوران کوئی تعاون یا مدد کی؟جنید رزاق اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’میں تقریباً گذشتہ دس بارہ دنوں سے اپنی مدد آپ کے تحت بیٹے کی رہائی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ میں کچھ ساتھی اظہار ہمدردی کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ کسی کی جانب سے کوئی مدد یا تعاون نہیں کیا گیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی نے کسی قسم کا کوئی تعاون یا مدد نہیں دی۔ نہ قانونی طور پر نہ ہی اخلاقی طور پر ہم سے رابطہ کیا گیا۔‘ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا کہ اس سب میں پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی قائدین نے نوجوانوں کو مشتعل کر کے عمران خان کی 27 سالہ سیاسی جدوجہد کو خراب کر دیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی پوری قیادت اس واقعے کی مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔ ’ان کو نوجوانوں کو وہاں لے کر نہیں جانا چاہیے تھا۔ وہ کس حیثیت سے انھیں وہاں لے کر گئے، ان کا مقصد اور منصوبہ کیا تھا؟‘
مردان میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چھ افراد کے خلاف مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کی منظوری دی ہے۔ان چھ افراد کے اہل خانہ اس سوچ میں ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ وکلا کے مطابق جس گاؤں سے کوئی گرفتار ہوا اس میں خوف پایا جاتا ہے۔ ’لوگ اس بارے میں بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔‘جہاں ایک جانب عام کارکنوں کو آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں سے سول کورٹ مارشل کی سزائیں سنانے کی منظوری دی گئی ہے وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بعض سیاستدان نو مئی کے واقعات اور عدالتوں سے رہائی ملنے کے بعد پارٹی چھوڑنے سے متعلق پریس کانفرنس کر کے گھر چلے جاتے ہیں مگر پارٹی کے عام کارکنان کے لیے یہ رعایت کیوں نہیں ہے۔