ہائبرڈ بندوبست ناکام کیوں ہوتا ہے؟

تحریر:وجاہت مسعود ، بشکریہ :روزنامہ جنگ

ہماری تاریخ کا ہر صفحہ گرد آلود اور ہر باب سیاہ پوش ہے۔ آج سات مارچ ہے۔ 45 برس قبل 7 مارچ 1977 کو کسی منتخب حکومت کی نگرانی میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ یہ انتخابی مشق اکتوبر 1976میں آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل غلام جیلانی کی ایک خفیہ رپورٹ سے شروع ہوئی اور پہلا ووٹ ڈالے جانے سے کئی ہفتے قبل 19جنوری 1977کو عملی طور پر اپنے انجام کو پہنچ گئی جب لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کے انتخابی حریف مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کر کے وزیر اعظم کو بلامقابلہ منتخب قرار دے دیا گیا۔ کل آٹھ مارچ ہو گی۔ 1951میں اس روز مبینہ راولپنڈی سازش کا انکشاف کر کے 10مارچ کو منعقد ہونے والے پنجاب کے صوبائی انتخابات ہی کو سبوتاژ نہیں کیا گیا، ہمارے سیاسی زائچے میں عسکری مداخلت کی لغت بھی داخل کی گئی۔ یہ سازش جنرل اکبر اور ان کے ساتھیوں نے نہیں، سکندر مرزا اور ایوب خان نے تیار کی تھی جو نہایت احتیاط سے اس سازش کی آبیاری کرتے ہوئے اکتوبر 58 ء تک پہنچے۔ طویل دورانیے کے اس کھیل کا انجام ہم سب جانتے ہیں۔ اس سے اگلی تاریخ نو مارچ ہے جسے 2007 ء میں پرویز مشرف اور چیف جسٹس افتخار چوہدری میں تصادم کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کا مدوجزر سمجھنے والے آگاہ ہیں کہ اس تمثیل کا حقیقی خالق وہ شخص تھا جس نے بعد ازاں سپریم کورٹ میں بیان حلفی داخل کرنے سے انکار کیا تھا۔

تلے اوپر کے تین دنوں سے ہم نے تاریخ کا کتنا بہت سا رس متھ لیا۔ 74 برس پر محیط اس تاریخ کو نصابی بیانیے میں سیاست دانوں کی مفاد پرستی، نا اہلی اور بدعنوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اس کا زیر متن سمجھنے کے لئے دو حوالے دیکھئے۔ قائد اعظم نے سردار عبدالرب نشتر کی رپورٹ پر ایوب خان کی فائل میں ایک سخت انتباہی نوٹ لکھا تھا جس سے عملی طور پر ایوب خان کی ترقی کے امکانات مسدود ہو گئے۔ ایوب خان کی درخواست پر بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی فوج کے سربراہ فرینک میسروی سے سفارش کرنے راول پنڈی پہنچے تھے۔ عہدوں کے فرق سے قطع نظر پٹودی اور میسروی میں ذاتی تعلق استوار تھا۔ پٹودی نے اپنی کتاب میں میسروی کا ایک جملہ نقل کیا ہے۔ ’ممکن ہے میرے رخصت ہونے سے انہیں (پاکستانی سیاست دان بالخصوص وزیراعظم لیاقت علی خان) سبق مل جائے کہ عسکری افسروں سے کس طرح پیش آنا چاہیے‘۔ ایوب خان کمانڈر انچیف بن گئے تو انہوں نے امریکہ کے لئے نامزد ملٹری اتاشی بریگیڈیئر میاں غلام جیلانی کو بلا کر کچھ ہدایات دیں۔ مشاہد حسین کے مطابق ایوب خان نے کہا، ’ہم اس قسم کے حساس معاملات میں سویلین پر اعتماد نہیں کر سکتے‘۔ تو دیکھئے، فوج کا سربراہ وزیر اعظم کی اطاعت سے انکاری تھا۔ ماتحت ملٹری اتاشی کو سفیر پر اعتماد نہ کرنے کی ہدایت تھی۔ وزیر خزانہ غلام محمد کابینہ کے اجلاس میں وزیر تجارت فضل الرحمن (مشرقی پاکستان) سے گالی گفتار کرتے تھے۔

مشرقی پاکستان میں چیف سیکرٹری عزیز احمد نے نوآبادیاتی حاکمیت قائم کر رکھی تھی۔ گورنر جنرل غلام محمد کے ہرکارے چیف جسٹس محمد منیر کو ہدایات پہنچاتے تھے۔ مختصر یہ کہ عسکری قوت، افسر شاہی، عدلیہ اور حاکمانہ اقتدار کی اطاعت کے عادی جاہ پرست سیاست دانوں نے عوام کے خلاف ایک چہار فریقی اتحاد قائم کر رکھا تھا۔ صحافت کا معتدبہ حصہ بھی اس کھیل میں شامل تھا۔ عوام اس تصویر سے بے دخل کئے جا چکے تھے اور جمہوری حکمرانی کا خواب پریشان ہو چکا تھا۔

پاکستان بالخصوص مغربی پاکستان میں سیاسی اور تمدنی روایت کمزور تھی لیکن یہ بھی درست ہے کہ غیر سیاسی قوتوں نے روز اول ہی سے عوام پر ایسی کاٹھی ڈالی کہ جمہوری تجربے کی کامیابی کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہا۔ سات عشروں کی یہ کہانی جمہوری قوتوں کے خلاف غیر سیاسی سازش سے عبارت ہے۔ نیم جمہوری شراکت اقتدار کے بھیانک نتائج کسی فرد کی اہلیت یا دیانت سے تعلق نہیں رکھتے، یہ ادارہ جاتی حرکیات کا المیہ ہے۔ غیر جواب دہ حکومت کی ناکامی اس حقیقت سے جنم لیتی ہے کہ چھائونی اور شہر کی نفسیات دو الگ دنیائوں سے تعلق رکھتی ہے۔ عسکری مہارتوں اور طریقہ کار کو معاشرے پر لاگو کیا جائے تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ادھر جو مہارتیں اور اقدار معاشرے کے لئے کارآمد ہیں انہیں فوج میں رائج کیا جائے تو فوج اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کر سکتی۔ فوج میں تمام کارروائیوں کو نہ صرف دشمن بلکہ غیر متعلقہ افراد سے بھی خفیہ رکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف سیاسی عمل میں طے شدہ دستوری ضابطوں اور شفاف طریقے سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ فوج میں قیادت کے احکامات سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسری طرف سیاسی عمل میں قوم کی اجتماعی فراست اور مشاورت کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کےلئے لازمی امر ہے۔ اسی طرح فوجی کارروائی میں حریف کو حیران کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے لیکن سیاسی عمل ایک نامیاتی ارتقا پایا جاتا ہے جس میں تسلسل اور تواتر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فوجی کمانڈر کو ہر طرح کی ہنگامی صورت حال کےلئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف سیاست اعتماد کے پل باندھنے کا عمل ہے۔ مسلسل شکوک وشبہات کی فضا میں سیاسی عمل فساد اور تفرقے کی طرف لے جاتا ہے۔ سیاسی عمل کا نصب العین امن کا قیام ہے جب کہ عسکری قوتوں کا فرض جنگ کی تیاری ہے۔ عسکری ذہن کو قوت کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ سیاسی عمل پیداوار، تجارت اور علم کے سہارے آگے بڑھتا ہے۔ جدید ریاست میں علمی، تمدنی اور سیاسی قوتوں کو فوج پر بالا دستی دی جاتی ہے۔ فوج جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے، قوم کے سیاسی نصب العین کی محتسب نہیں۔ یہ اصول اپنانے والی قومیں جمہوریت اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتی ہیں۔ ان اصولوں سے انحراف کرنے والے مستقل بحران، پسماندگی اور اجتماعی ناکامی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔

Back to top button