15 پاکستانیوں کا یوکرین چھوڑنے سے انکار
یوکرین میں موجود15 پاکستانیوں نے جنگ زدہ ملک چھوڑنے سے انکار کردیا ہے، پاکستان واپس آنے سے انکار کرنیوالوں میں 9 سیاسی پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد اور 6 طالب علم شامل ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ سفارت خانے کے ساتھ رابطے میں موجود انکار کرنے والے طلبہ میں سے 5 طالبات ہیں.
سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ان تمام 15 پاکستانیوں نے جنگ زدہ یوکرین چھوڑنے کے مشورے کے باوجود وہیں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستانی سفارتخانے نے اپنی یومیہ ’فیکٹ شیٹ‘ میں اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ زدہ علاقے میں پھنسے ہوئے 35 پاکستانیوں کو نکالنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہا ہے جبکہ روس کے ساتھ یوکرین کا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے اور دونوں جانب سے بہت زیادہ جانی نقصان کی اطلاع ہے۔
سفارت خانے کا کہنا تھا کہ حراستی مرکز میں 9 پاکستانی اور ایوانو فانکیوسک اور ترنوپل میں 6 طالب علم موجود ہیں جنہوں نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ وولین حراستی مرکز میں تھے وہ یوکرین چھوڑنا نہیں چاہتے کیونکہ ان کے سیاسی پناہ کے کیسز زیر التوا ہیں۔بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ حراستی مراکز میں موجود دیگر تمام پاکستانیوں کو رہا کر دیا گیا تھا جنہیں یوکرین سے نکال لیا گیا ہے۔
پاکستان واپس آنے سے انکار کرنیوالے 6 طالب علموں کے نام جاری کرتے ہوئے سفارت خانے کا کہنا تھا کہ وہ ایوانو-فینکیوسک اور ٹرنوپل میں ہیں اور وہ یوکرین چھوڑنے کے لیے سفارتخانے کے بار بار مشورے کے باوجود اپنے طور پر وہیں رہنا چاہتے ہیں۔انکار کرنے والی طالبات میں حرا عمران، شمزہ خان، سمیرا اکرم، حنا کریم، سلیم الرحمٰن اور امیمہ ارم علوی شامل ہیں۔تاہم، بیان میں بتایا گیا ہے وہ 4 پاکستانی نژاد یوکرینی شہری جو یوکرین چھوڑنا چاہتے ہیں، ان میں کاشف شہزاد، منیر مغل، محمد شفیق اور کامران یونس شامل ہیں۔
سفارتخانےکے مطابق روس یوکرین تنازع شدت اختیار کر گیا ہے اور دونوں طرف سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔
اس کا مزید کہنا تھا کہ تنازع کے آغاز سے لے کر اب تک امن مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں، دوسرے دور میں غیر ملکیوں کے انخلا اور ادویات اورانسانی امداد کی فراہمی کے لیے گرین کوریڈور کھولنے پراتفاق کیا گیا، تاہم تفصیلات کا فیصلہ تیسرے راؤنڈ میں کیا جائے گا۔بیان میں کہا گیا کہ اس کے بعد ہم ماریوپول، سمی اور خرسون میں پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
بیان میں یہ واضح کیا گیا کہ یوکرین میں کوئی بھی شہر محفوظ نہیں ہے، خوراک اور پیٹرول کی قلت ہے اور پاکستانیوں اور مشن کی دیکھ بھال میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ بیان میں انکشاف کیا گیا کہ 24 فروری کو کشیدگی بڑھنے کے بعد سے 10 لاکھ سے زیادہ افراد پہلے ہی یوکرین سے فرار ہو چکے ہیں۔
بیان مطابق گزشتہ رات زاپاروزیا کے علاقے پر حملہ ہوا اور اس کے نتیجے میں یورپ کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ (این پی پی) کے علاقے میں آگ بھڑک اٹھی جبکہ اب روسی افواج نے زاپاروزیا این پی پی پر قبضہ کر لیا ہے۔