پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے مالیاتی امورمیں بے ضابطگیوں کا انکشاف

پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے مالیاتی امورمیں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے.آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مالیاتی امورمیں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مالی سال 21-2020 میں متعدد بے ضابطگیاں بے نقاب کردیں۔
رپورٹ کے مطابق پی آئی ڈی کے آڈٹ میں انکشاف ہوا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کے 13 ملازمین کو گھر کے کرایے کی مد میں ایک کروڑ 37 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے 31 جولائی 2014 کے میمورنڈم کے مطابق تمام ادائیگیاں کراس چیک کی صورت میں ہونی چاہیے جو مکان مالک کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کے لیے بینک منیجرکو بھجوایا جائے گا۔
آڈٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ وزارت اطلاعات کے مرکزی شعبے پی آئی ڈی کی انتظامیہ نے 13 ملازمین کی رہائشی عمارتوں کے کرایے کی ادائیگی کے لیے ایک کروڑ 37 لاکھ 20 ہزار روپے ادا کیے۔آڈٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک ذیلی رجسٹرار کے ذریعے غیر رجسٹرڈ پاورآف اٹارنی کی بنیادی پرملازمین کو کرایہ ادا کیا گیا۔تاہم مالک مکانوں کے علاوہ کوئی قانونی اختیار نہ رکھنے والوں کو کی جانے والی ادائیگیاں باقاعدہ نہیں تھیں۔اٹارنی جنرل پاکستان نے سفارش کی کہ یہ عمل رکنا چاہیے ساتھ ہی پی آئی ڈی کو ہدایت کی گئی کہ اس بے ضابطگی کو دورکریں۔
آڈٹ میں یہ نشاندہی بھی ہوئی کہ پی آئی ڈی نے خرید و فروخت کرنے والوں کو 77 لاکھ روپے کی ادائیگی میں وفاقی حکومت کے خزانہ سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی کی۔رول نمبر 157 (2) کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ ’تھرڈ پارٹی کو تمام ادائیگیاں وصول کنندہ کے نام سے جاری کیے گئے چیکس کے ذریعے کی جائیں گی۔تاہم پی آئی ڈی انتظامیہ نے دکانداروں کے نام کراس چیک جاری کرنے کے بجائے ایک افسر کے نام پر 77 لاکھ روپے ادا کیے۔مالی سال 2-2019 کے دوران بھی، آڈٹ نے محکمے پر بے ضابطگیوں، نجی گاڑیوں کی غیر مجاز خدمات اور مختلف عہدوں پر غیر قانونی تقرریوں کا الزام لگایا۔
آڈیٹرجنرل کی رپورٹ کے مطابق پی آئی ڈی میں 479 اسامیاں تھیں جس پر 110 افسران اور 369 سیکریٹیڑیل عملہ کی اسامی شامل ہیں۔انتظامیہ نے اخبار میں اشتہار دیے بغیر ان اسامیوں پر تعیناتیاں کیں، رپورٹ میں اس معاملے کی انکوائری کرنے کی بھی سفارش کی گئی۔آڈٹ میں یہ بھی پتا چلا کہ محکمے نے پروکیورمنٹ رولز کے خلاف پرائیویٹ گاڑیاں کرائے پر لی ہیں، کیونکہ قواعد کے مطابق اس کے لیے بھی پرنٹ میڈیا میں تشہیر بھی کی جا سکتی ہے۔

Back to top button