سو جوتے اور سو پیاز پرویز الٰہی کا مقدر کیسے بنے؟
ڈیڑھ سال کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کے لالچ میں اپوزیشن اتحاد کو دھوکہ دینے والے گجرات کے سیانے چوہدری، پرویز الٰہی، اب نہ گھر کے رہے ہیں اور نہ ہی گھاٹ کے اور سو جوتے اور سو پیاز ان کا مقدر بن چکے ہیں۔ موصوف نے اپوزیشن اتحاد کی جانب سے وزارت اعلیٰ کی یقین دہانی مل جانے کے باوجود لالچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ صرف اس لئے ہاتھ ملا لیا کہ وہ 6 مہینے کی بجائے ڈیڑھ برس کے لیے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے، تاہم لالچ ایک مرتبہ پھر بری بلا ثابت ہوئی اور ایم کیو ایم کے اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کے بعد اب عمران خان وزارت عظمی اور پرویز الہی اسپیکر شپ سے بھی فارغ ہونے جا رہے ہیں۔ یوں ان کا وزیر اعلی پنجاب بننے کا خواب ان کے لالچ کے ہاتھوں چکنا چور ہو گیا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پاس ہونے اور عمران خان کی چھٹی کے بعد انکی حالت دھوبی کے کتے والی ہو جائے گی جو نہ گھر کا نہ رہے گا اور نہ گھاٹ کا۔ یاد رہے کہ پرویز الہی نے عمران خان کی جانب سے سے وزارت اعلی کی پیشکش قبول کرنے سے پہلے اپنی جماعت کے سربراہ اور بڑے بھائی چوہدری شجاعت حسیں سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا اور مونس الہی سے مل کر واردات ڈال دی جو اب الٹی پڑ گئی ہے۔
آصف زرداری دھوکہ کھانے کے بعد پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ پرویز الہی کو کسی بھی صورت پنجاب کا وزیر اعلی نہیں بننے دیا جائے گا اور وزارت اعلی اپوزیشن کے پاس جائے گی۔ یاد رہے کہ عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں قاف لیگ کے ووٹ حاصل کرنے کے عوض پرویز الہی کو وزیر اعلی بنانے پر آصف زرداری نے نواز لیگ کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا تھا، لیکن سیانے چوہدری نے ثابت کیا کہ وہ پاکستانی سیاست کا موقع پرست ترین کردار یے۔ تاہم اس مرتبہ پرویزالٰہی کی موقع پرستی بھی کام نہ آئی اور سیانا چوہدری بقول شخصے "گوں” پر جا بیٹھا۔ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ جب شہباز شریف 35 برس بعد آصف زرداری کے اصرار پر چوہدریوں کے گھر پہنچے تھے تب بھی پرویز الہی نے اسی طرح کی حرکت کی تھی اور وعدے کے باوجود جوابی طور پر شہباز شریف کے گھر جانے سے انکاری ہوگئے تھے۔ اسی دوران تحریک انصاف کے باغی اراکین سامنے آگئے تو پرویز الہی کو اپنا رول ختم ہوتا ہوا نظر آیا لہذا فوری طور پر شجاعت حسین کو آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی منت ترلے کرنے کے لئے اسلام آباد بھیج دیا۔ آصف زرداری نے دوبارہ سے شریف خاندان کو پرویز الہی کی وزارت اعلی پر آمادہ کیا۔ بعد ازاں 27 مارچ کے روز نوازشریف کی منظوری کے بعد پرویزالہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی باقاعدہ یقین دہانی کروا دی گئی تھی لیکن انہوں نے یہ آفر عمران کے آگے بیچ دی اور وہاں سے وزارت اعلی کی پیشکش حاصل کر لی۔
چودھری پرویزالٰہی کی جانب سے اپوزیشن کو دھوکا دینے کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے عمران کے ساتھ جانے کا فیصلہ ایک عسکری شخصیت کی فون کال آنے کے بعد کیا جس نے انہیں باجوہ صاحب کا پیغام پہنچایا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو ایک ریٹائرڈ فوجی تھا جس نے باجوہ صاحب کا نام غلط طور پر استعمال کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ فوجی قیادت اس مبینہ فون کال کی انکوائری کا حکم دے چکی ہے۔ پرویز الہی کا اپنا یہ کہنا ہے کہ وہ ڈیڑھ برس کے لیے پنجاب کے وزیر اعلی بننا چاہتے تھے جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگلی حکومت کتنا عرصہ چلے گی۔ سینئر صحافی حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے پرویز الہی نے یہ عذر بھی پیش کیا کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز انہیں وزیر اعلی بنانے پر دل سے خوش نہیں تھے اور ڈیل میں جنھیں آن بورڈ ہونا چاہیے تھا وہ آن بورڈ نہیں تھے، پرویز نے کہا کہ شہباز شریف کا اپنا ایک اسٹیٹس ہے لیکن ویٹو پاور نواز شریف کے پاس ہے۔ تاہم پرویز الہی کا یہ موقف اس لیے وزن نہیں رکھتا کہ انہیں باقاعدہ وزیر اعلی بنانے کی کمٹمنٹ دے دی گئی تھی جس کے بعد انہوں نے آصف زرداری کے گھر اسلام آباد جاکر ان کا شکریہ ادا کیا اور مٹھائی بھی لیکر گے، اس کے بعد دس بندوں کی موجودگی میں دعائے خیر بھی پڑھی گئی۔ پھر پرویز الہی نے لندن فون کرکے اسحاق ڈار کا شکریہ ادا کیا، لیکن اس کے چند ہی گھنٹے بعد پرویز الہی حزب اختلاف کو دھوکہ دے گئے۔
کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے ساتھ ہماری ایک تاریخ ہے۔ وہ ہمیں ماضی میں تین مرتبہ دھوکا دے چکے ہیں اس لیے ہم ان کے ساتھ بڑے محتاط طریقے سے چلتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ہماری وزارت اعلی کا ٹائم پیریڈ صرف تین سے چار مہینے کا ہے، اس سے زیادہ نہیں ہے اور یہ طے ہے لہذا ہمیں اس حوالے سے تحفظات تھے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ اسی دوران سنجدہ مذاکرات چل رہے تھے۔ مجھے وزیراعظم عمران نے خود فون کیا کہ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں، پلیز آ جائیں، لہذا ہم بنی گالہ گے اور وزارت اعلیٰ کی پیشکش قبول کرلی۔
دوسری جانب اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری پرویز الہی نے ان کے ساتھ صریحا دھوکہ کیا اور ان سے عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی داخل کروا دی۔ لیکن عمران خان نے پرویز الہی کو وزارت اعلی کی یقین دہانی کروانے کے باوجود ابھی تک عثمان بزدار کا استعفی گورنر پنجاب کو قبول کرنے کے لیے نہیں بھجوایا جس پر پرویز الہی کافی مضطرب ہیں۔ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پرویز الہی کے وزیر اعلی پنجاب بننے کے امکانات مکمل طور پر ختم ہوچکے ہیں کیونکہ عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے ہیں اور ان کی چھٹی ہونے کے بعد پنجاب میں وزارت اعلیٰ اپوزیشن اتحاد کے بندے کے پاس جائے گی۔ یوں لالچ کے مارے پرویزالہی اب سو جوتے بھی کھائیں گے اور سو پیاز بھی۔