امریکہ کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا چاہتے ہیں

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کہا ہے کہ کسی کیمپ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ہیں، عوام کی خوشی عزیز ہے، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، پاکستان کسی دوسرے ملک سے تعلقات کو متاثر کیے بغیر امریکا کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا چاہتا ہے۔
آرمی چیف کا سکیورٹی ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امن و استحکام خوشحالی و ترقی کیلئے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، خطے کو دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی اور غربت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، ہم نے بےشمار قربانیاں دے کر دہشت گردی پر قابو پایا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار جانوں کی قربانی دی اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک ہماری کوشش جاری رہے گی۔
افغانستان کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان اہم اقتصادی خطے میں واقع ہے، خطے کی سکیورٹی اور استحکام ہماری پالیسی میں شامل ہے جبکہ افغانستان پر پابندیاں وہاں کی مشکلات میں اضافےکا باعث ہیں۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے عالمی برادری سے مل کر افغانساتان کی مدد کی لیکن افغان عوام کی مدد کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے، پابندیاں لگانے کے بجائے افغانوں کے مثبت رویے کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر ایک سال سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن بھارت کی طرف سے میزائل کا پاکستان میں گرنا گہری تشویش کا باعث ہے، پاکستان نے بھارت کے میزائل گرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، بھارت دنیا اور پاکستان کو بتائے کہ اس کے ہتھیار محفوظ ہیں، آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات اور سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے، پاکستان چاہتا ہے بھارت کے ساتھ آبی تنازع بھی مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے حل ہو۔
روس یوکرین تنازع پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ یوکرین پر روسی حملہ بد قسمتی ہے، پاکستان نے سیز فائر اور ڈائیلاگ کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے، پاکستان نے یوکرین کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ روس کےجائز سکیورٹی مسائل کے باوجود چھوٹے ملک کے خلاف جارحیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پاکستان چاہتا ہے یوکرین میں فوراً جنگ بندی کی جائے، یوکرین کا معاملہ بہت بڑا سانحہ ہے، یوکرین کےہزاروں لوگ ہلاک،لاکھوں پناہ گزیں بن گئے،آدھا ملک تباہ ہوچکا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کئی وجوہات کے باعث پاکستان روس تعلقات کافی عرصے سرد رہے، حالیہ عرصے میں روس سے تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا پاکستان کے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور پاکستان کا چین کے ساتھ سی پیک معاہدہ انتہائی اہم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی کیمپ پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا، ہمارے چین، امریکا، یورپی یونین اور جاپان سے اچھے تعلقات ہیں، پاکستان کسی بھی دوسرے ملک سے تعلقات کو متاثر کیے بغیر امریکا کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا چاہتا ہے۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہمارے امریکا کے ساتھ بہترین اور طویل اسٹریٹجک تعلقات ہیں اور امریکا پاکستان کے لیے سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔
دریں اثنا جنرل باجوہ اور سفیر زلمے خلیل زاد کے درمیان جمعہ کو ملاقات کے بعد انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سابق امریکی اہلکار نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا، آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملاقات میں افغانستان کے علاوہ دو طرفہ تعاون کے مختلف پہلوؤں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، زلمے خلیل زاد قومی سلامتی کے مذاکرات میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، انہوں نے جنرل باجوہ کے ساتھ افغان امن اور مفاہمت پر خصوصی ایلچی کی حیثیت سے کام کیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونالڈ لو نے امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید کو خبردار کیا تھا کہ عمران خان کے عہدے پر برقرار رہنے سے دوطرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں اور پاکستانی وزیراعظم کو ان دنوں مشترکہ اپوزیشن سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا تھا اور اس معاملے پر سخت احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا،اجلاس میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو بھی ڈائیلاگ میں مدعو کیا گیا تھا اور توقع تھی کہ وہ اس موقع پر ویڈیو بیان جاری کریں گے لیکن مبینہ طور پر نئے تنازع کی وجہ سے انہوں نے اس تقریب کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔

Back to top button