عدم اعتماد پر ووٹنگ، قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس آج ہو گا
وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار کی کشتی آخری ہچکولے کھا رہی ہے عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس آج ہوگا، جس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی جائے گی۔قومی اسمبلی کا اجلاس صبح گیارہ بجے اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوگا، جس میں قائد حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی جائے گی۔ اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ایجنڈے میں کارروائی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ شامل ہے۔
اگر اپوزیشن ایوان میں 172 یا زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وزیراعظم عمران خان عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے بصورت دیگر وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور اپوزیشن کو شدید دھچکا لگے گا۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اتوار کے اجلاس کے لیے جاری کیے گئے ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شامل ہے۔ اجلاس کے لیے صبح 11 بج کر 30 منٹ کا وقت دیا گیا ہے۔ایجنڈے کے آئٹم چار کے مطابق اجلاس اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جانب سے 28 مارچ کو پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق کرائی جائے گی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اس ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں۔سنیچر کو سرکاری ٹی وی کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نوجوانوں کو احتجاج کی کال دینے کے بعد ووٹنگ کا عمل تناؤ کے ماحول میں ہوگا، اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تصادم کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سنیچر ہی کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکمران جماعت اور اس کے حامی ارکان بھی اجلاس میں شریک ہوں گے، جبکہ اس سے قبل پارٹی رہنما عمران خان نے اپنی جماعت کے ارکان کو ووٹنگ میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے باقاعدہ خط لکھا تھا۔تاہم اسلام آباد کی انتظامیہ نے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں جلسے جلوس اور ریلیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سنیچر کو جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ریڈ زون میں دفعہ 144فوری طور پر نافذ العمل ہو گی اور یہ فیصلہ امن او امان کی صورتحال خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔پورے علاقے میں کنٹینرز لگا کر عام آمدورفت کو روک دیا گیا ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ نے اتوار کو ہونے والے اجلاس کے موقع پر خصوصی حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوئے وزرا اور ارکان پارلیمان کے مہمانوں کی پارلیمنٹ میں آمد پر پابندی عائد کردی ہے۔قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے سنیچر کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سکیورٹی گارڈ کو پارلیمنٹ ہاؤس کی حدود میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، بہتر یہی ہوگا کہ انہیں پارلیمنٹ لاجز کے سامنے ہی محدود کیا جائے۔اراکین اسمبلی کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے پارلیمنٹ لاجز اور گورنمنٹ ہاسٹل سے پارلیمنٹ ہاؤس تک شٹل سروس چلائی جائے گی تاکہ گاڑیوں کا رش نہ لگے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق تحت کسی بھی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کےلیے موجودہ اسمبلی کی کُل تعداد کی سادہ اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔اس وقت موجودہ اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 342 ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو اجلاس میں کامیابی کے لیے کم از کم 172 ارکان کے ووٹ دکھانے ہوں گے۔ ووٹنگ ارکان کو دو اطراف تقسیم کرنے کے ذریعے ہو گی۔ کہا جائے گا کہ جو ارکان عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں ہیں وہ ایک سائیڈ پر ہو جائیں، جبکہ مخالف ارکان دوسری سائیڈ پر ہو جائیں۔ اس کے بعد پھر ان کی گنتی کی جائے گی۔بظاہر اپوزیشن کے پاس اتحادیوں سمیت 177 ارکان کی حمایت موجود ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اسے درجن بھر پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے، مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ ان میں سے کتنے ووٹنگ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی ان کی کابینہ بھی عہدوں سے سبکدوش ہو جائے گی۔کسی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جانے کی صورت میں وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے معطل ہو جائے گا۔ویسے تو آئین کے آرٹیکل 94 کے مطابق صدر وزیراعظم کی مدت پوری ہونے کے بعد اس کے جانشین کی نامزدگی تک اسے کام جاری رکھنے کا کہہ سکتا ہے۔تاہم ماہر قانون و آئین حامد خان کے مطابق چونکہ پاکستان میں آج تک کبھی وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے تحت نہیں ہٹایا جا سکا، اس لیے ابہام موجود ہے کہ کیا اس طرح پارلیمنٹ کی جانب سے ہٹائے جانے کے بعد وزیراعظم نئے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی تک اپنے عہدے پر کام کر سکتے ہیں۔
حامد خان کے مطابق اس صورت میں صدر عارضی انتظام کے طور پر کسی بھی رکن اسمبلی کو بطور وزیراعظم کام کرنے کا کہہ سکتا ہے۔لیکن ماہر پارلیمانی امور اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمینٹری سروسز کے سابق سربراہ ظفراللہ خان کے مطابق ماضی قریب میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ وزیراعظم کا عہدہ چند دنوں کے لیے خالی رہا ہو۔انہوں نے مثال دی کہ جب 19 جون 2012 کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا تو اگلے چند دن تک ملک میں وزیراعظم کا عہدہ خالی رہا تھا اور 22 جون کو وزیراعظم پرویز اشرف کا انتخاب کیا گیا۔اسی طرح جب 2017 میں وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل کیا تو اس وقت بھی شاہد خاقان عباسی کے انتخاب تک عہدہ خالی رہا تھا۔نئے وزیراعظم کا انتخاب کتنے دنوں میں ہو گا؟حامد خان کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فورا بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہو جائے گا۔ تاہم اس کے بعد صدر کو چاہیے کہ ایک دو دن میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا سیشن بلائیں۔ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا طریق کار اور مدت تو آئین میں موجود ہے مگر اس طرح کی صورتحال میں مدت مقرر نہیں ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں صدرِ مملکت کے لیے لازم ہو گا کہ وہ فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں جس میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہو۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی (پلڈاٹ ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق قومی اسمبل قواعد کے مطابق کسی بھی وجہ سے اگر وزیراعظم کا عہدہ خالی ہوجائے تو قومی اسمبلی اپنی ہر کارروائی چھوڑ کر وزیراعظم کا انتخاب سب سے پہلے کرے گی۔ البتہ یہاں بھی نئے وزیراعظم کے انتخاب کےلیے وقت کی قید کا تذکرہ موجود نہیں۔حامد خان کے مطابق صدر کی جانب سے اجلاس طلب کیے جانے پر وزیراعظم کا انتخاب ایک یا دو دن میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیےامیدوار کو رکن اسمبلی نامزد کر سکتا ہے اور ممبر اسمبلی ہی تائید کنندہ بن سکتا ہے۔امیدواروں کی نامزدگی کے بعد سپیکر ووٹنگ کے وقت کا تعین کرے گا۔ نئے وزیراعظم کا انتخاب اوپن بیلٹ سے ہو گا اور ارکان کو شو آف ہینڈز یا تقسیم ہو کر اپنے ووٹ کا اظہار کرنا ہوگا۔ نئے وزیراعظم کو منتخب ہونے کے لیے ایوان کی اکثریت یعنی 172 ووٹ لینا ہوں گے۔ اس پورے عمل کی نگرانی سپیکر قومی اسمبلی کو کرنا ہوگی۔ یاد رہے کہ اپوزیشن پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس کی طرف سے شہباز شریف ہی وزارت عظمی کے امیدوار ہوں گے۔نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوتے ہی جو لوگ حکومت میں تھے وہ اپوزیشن بینچز پر چلے جائیں گے اور اپوزیشن والے حکومتی بینچز پر آجائیں گے۔ پھر نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کےدوران ہنگامہ آرائی کا خدشہ ہے،قویٰ امکان ہے کہ اپوزیشن کے اراکین پر حملہ ہوسکتا ہے، جس کا آغاز پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اور اپوزیشن کو ’لوٹا، غدار، بکاؤ‘ کی آوازیں کسنے سے ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت عدم اعتماد کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گی جبکہ ذرائع نے بتایا کہ شواہد کی روشنی میں کچھ اراکین کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اور خصوصا ریڈ زون میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے جبکہ شہر اقتدار میں دفعہ ایک سو چوالیس بھی نافذ کردی گئی ہے، علاوہ ازیں میٹرو بس سروس کو بھی غیرمعینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا ہے۔